ایک بلا جواز فاتحانہ ٹویٹ

221

پاکستان میں صرف دو شخصیات پر قوم آدھی آدھی متحد اور متفق ہے وہ ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال۔ آدھی بھی کچھ اس، دلچسپ انداز میں متفق اور متحد ہیں کہ جب اور جس دور کے حکمران کو قائد اعظم کی کسی مخصوص تقریر اور علامہ کے کلام کے مخصوص حصے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کی بھرپور تشہیر کرتا ہے عام آدمی قائد اعظم اور علامہ اقبال کی ذات کے سحر میں گم ہوتا ہے۔ اگلا دور اپنی ضرورت اور ذہنی اُپچ کے مطابق تقریروں اور کلام کے کسی دوسرے حصے کو اپناتا ہے اور پھر اسی حصے کی تشہیر ہوتی ہے اور باقی لوگ اسی سحر میں مست رہتے ہیں۔ اس کے سوا قوم کسی لیڈر اور فکری راہنما کو حرزجاں نہیں بناتی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مغربی دنیا میں یہ تاثر بہت منظم انداز میں پھیلایا گیا تھا کہ پاکستان کا سماج اور طاقتور ریاستی ادارے اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسامہ بن لادن کی زلف کی اسیر ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوگیا تو پاکستانی عوام مدتوں سر پیٹتے اور سینہ کوبی کرتے رہیں گے اسی تاثر کے تحت ایبٹ آباد آپریشن کے دوسرے روز پر مغربی دنیا اور میڈیا پاکستان پر نظریں جمائے ہوئے تھا مگر ان کے اندازے غلط ثابت ہو رہے تھے۔ اس روز بھی کارحیات عام دونوں سے زیادہ معمول کے تحت چلتا رہا اور باقی دنیا کی طرح یہاں بھی خالی تبصروں اور تجزیوں سے جی بہلایا جاتا رہا۔
پاکستان کے سخت جان لوگ حافظ محمد سعید کے جیل آنے جانے کی خبروں کے اسی طرح عادی ہو چکے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ان کی یہ آمدو رفت لوگوں کے لیے معمول بن چکی ہے مگرجو بات پاکستانیوں کے لیے معمول ہے نجانے کیوں وہی معمول کی آمدو رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اس قدر اہم ہوگئی کہ انہوں نے ٹویٹ داغ دیا۔ حکومت کے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے حافظ محمد سعید کو اس وقت گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کر لیا جب وہ ایک مقدمے کی پیشی کے لیے سوئے عدالت رواں تھے۔ انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ حافظ سعید پر مختلف مقامات پر بہت سے مقدمات درج ہیں اور کچھ عرصہ پہلے ان پر خیرات اور چندے کے پیسے دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کا ایک نیا مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ حافظ سعید کی جماعت اور نیٹ ورک یوں تو کافی عرصے سے زیر عتاب ہے مگر بالاکوٹ واقعے کے بعد یہ عتاب کچھ اور تیز ہو گیا ہے۔ حافظ سعید کی گرفتاری کے ساتھ ہی امریکی صدر ٹرمپ ٹارزن بن کر سامنے آئے اور انہوں نے اس گرفتاری کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’دس سال کی تلاش اور ان کی حکومت کے دوسالہ دبائو کے بعد ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ دھر لیا گیا‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ٹویٹ کا مقصد داخلی اور سیاسی معلوم ہوتا ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کے سامنے اپنی کامیابیوں کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عام انتخابات تک ان کی کامیابیوں کا الائو اس شان اور شدت سے دہک رہا ہو کہ مخالف جماعت کا چراغ جل کر بھی بے معنی ہو کر رہے۔ ٹرمپ کی اس خواہش اور کوشش کا اصل مرکز افغانستان سے امریکی فوج کا باعزت اور پرامن انخلا ہے۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں یہی نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ شکر رنجی کا تاثر دے کر پاکستان کو پوری طرح شیشے میں اتارا جا رہا ہے۔
افغانستان کا معاملہ ایسا ہے کہ وہاں امن خود پاکستان کی ضرورت ہے۔ ہمسائے کے طور پر افغانستان میں لگی آگ سے پاکستان اپنا دامن بچا نہیں سکا اس لیے امریکا سے زیادہ افغانستان میں قیام امن پاکستان کی خواہش اور ضرورت ہے۔ حافظ سعید کی حالیہ گرفتاری نئی نہیں وہ ماضی میں گرفتار اور نظر بند ہوتے رہے ہیں اور عدالتی پیشیاں بھگتنا بھی ان کا معمول ہے مگر کسی امریکی صدر نے اس عمل پر ٹویٹ کرکے کریڈٹ سمیٹنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی سے اندازہ ہورہا ہے کہ ٹرمپ کو انتخابی ضرورت کے تحت چھوٹی چھوٹی فتوحات کے ستارے اپنی سیاسی مانگ میں سجانے کا جنون ہے۔ امریکا کی اپنی حالت تو یہ ہے کہ کل تک جن طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر کچلنے میں مصروف تھا اب ان کے ساتھ بااہتمام مذاکرات کررہا ہے اور چائے اور کھانے کے دور چل رہے ہیں، تصویریں بن رہی ہیں اور خبریں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں چھپ رہی ہیں۔ وہ طالبان جنہیں بوجھ اور دشمن سمجھا جاتا تھا اب امریکا کے لیے اثاثہ بن رہے ہیں کیوںکہ یہی وہ قوت ہے جو امریکا کو باعزت واپسی کا راستہ اور ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ حالات واقعات کا منظر اور ترتیب بھی بدل جاتی ہے۔ ریاستوں کی ترجیحات، پسند وناپسند کے میعار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ اندرا گاندھی نے جو تامل ٹائیگرز بنائے تھے ایک روز انہی کو کچلنے کے لیے سری لنکا میں اپنی فوج اتاری اور بعد میں یہ پالیسی راجیو گاندھی کو چاٹ گئی۔ اندرا گاندھی نے اکالی دل کا زور توڑنے کے لیے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو استعمال کیا تھا ایک روز اسی بھنڈرانوالہ کو مارنے کے لیے دربار صاحب پر آپریشن بلیو اسٹار کے نام پر چڑھائی کی۔ ایران جن طالبان کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکاری تھا اب ان سے بہتر تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔ پاکستان بھی بین الاقوامی قانون کی پابند ایک ریاست ہے۔ اس کے معیار اور پالیسیاں بھی وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی ہیں۔ اس لیے کل کے اثاثے بوجھ بن جائیں تو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت اے ایف ٹی ایف کے ذریعے امریکا، بھارت اور دوسری طاقتیں پاکستان پر بھرپور دبائو بڑھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان گرے لسٹ میں ہے مگر بلیک لسٹ کی تلوار اس کے اوپر لٹکا دی گئی ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے پاکستان ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ معاشی طور پر بھی پاکستان کی کلائی مروڑنے کا عمل زوروں پر ہے۔ حافظ سعید اور ان جیسے دوسرے کرداروں کا معاملہ تاریخ اور مورخ کے حوالے ہے اور وقت بتائے گا حافظ سعید نے پاکستان کا گھیرا توڑنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ حافظ سعید پر دہشت گردی کا لیبل اترنے میں وقت بدلنے کی اور ایک نعرہ بلند ہونے کی دیر ہے۔ وہ کل ایغور مسلمانوں کی حمایت میں چل پڑنے کا اعلان یا ایران کو سبق سکھانے کا اعلان کریں تو ان پر لگے تمام لیبل اور پابندیاں مریدکے کے کوڑے دانوں میں پڑے ملیں گے۔