عمران خان کی فکر کا ماخذ

203

صدر ایوب خان کے دور حکومت میں ڈپو سسٹم تھا جہاں بازار سے کم قیمت پر آٹا، چینی ملا کرتی تھی پھر یوں ہوا… کہ بازار میں ایک کلو (سیر) کی قیمت 150 پیسے اور ڈپو پر اس کی قیمت 160 پیسے ہوگئی، نتیجتاً عوام نے ڈپو سے چینی خریدنا چھوڑ دیا اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر ڈپو ہولڈر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے اور حکومت کے مشیروں کے مشورے سے بازارا میں چینی کی قیمت 175 پیسے کردی گئی۔ عوام نے اس مہنگائی کو مسترد کردیا اور بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ ایوب خان کی حکومت بونی بن کر رہ گئی۔ بالآخر رفتہ رفتہ عوام سڑکوں پر آگئے اور ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔ مگر عوام کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ بھٹو مرحوم بھی عوامی غصے اور نفرت کی سولی پر چڑھادیے گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت جو کچھ کررہی ہے اِس دور کے سیاست دان اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ کیسی شرمناک بات ہے کہ ٹیکس اور مہنگائی کے اضافے پر عوام کو تسلی دینے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ ٹیکس تو دینا ہی پڑے گا، مہنگائی تو برداشت کرنا ہی پڑے گی۔
کئی عشروں قبل انور مقصود کا ایک قسط وار ڈراما ’’آمنا سامنا‘‘ ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا کچھ مذہبی جماعتوں نے اعتراض کیا کہ ڈرامے کا نام ’’آمنا سامنا‘‘ حضرت آمنہ کی توہین ہے، دو تین ہی احتجاجی ریلیاں نکلی ہوں گی کہ ڈراما بند کردیا گیا اور اب یہ حال ہے وزیراعظم عمران خان صحابہ کرام کو لٹیرا کہہ رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں مگر کسی مذہبی جماعت کو احتجاج کرنے اور احتجاجی ریلی نکالنے کی توفیق نہیں۔ اس بے حسی نے ان کے حوصلے اس حد تک بڑھادیے ہیں کہ اب لغت سازی میں بھی اپنے مطلب کے معنی درج کرنے لگے ہیں۔ لفظ کے معنی اپنی مرضی سے طے کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی نصابی کتب میں ’’مال غنیمت‘‘ کے معنی لوٹ مار بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سیاست دانوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ’’لٹیرا‘‘ ان کا تکیہ کلام بن چکا ہے اور وہ سوچے سمجھے بغیر کسی کو بھی لٹیر اقرار دے دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں صحابہ کرام بزدل اور لٹیرے تھے اور وہ برملا اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ کون ہے جو ان سے ایسی شرمناک حرکات کا ارتکاب کرارہا ہے؟ اور یہ ہدایات کہاں سے درآمد کی جارہی ہیں؟ وہ اس ہدایات پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں جانتی ہیں کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنے مشاہیر کی توہین برداشت نہیں کرسکتے تو کیا… وزیراعظم عمران خان کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ اہل پاکستان کے دلوں میں صحابہ کرام کے لیے نفرت اور بے زاری کی تخم ریزی کریں ان کی قوتِ برداشت کا امتحان لیں مگر عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ نفرت کی تخم ریزی کرنے والے ہی سب سے پہلے اس کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ اب تو عوام بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں کہ مقتدر قوتوں نے آخر عمران خان ہی کا انتخاب کیوں کیا؟۔ کیا وہ عمران خان کے ماضی اور ماضی الضمیر سے واقف نہ تھے۔ اس حوالے سے یہ سوال بہت ہی زیادہ زیر بحث آرہا ہے کہ جو شخص اپنی بیٹی سے انکار کا مرتکب ہوا ہو جس نے اپنے اہل و عیال کو مرتد ہونے پر مجبور کیا ہو وہ قوم کا ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟۔ فوج کی نفسیات اور اس کی کارکردگی کے معترف افراد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ فوج عمران خان کے نظریات کی اصلاح کیوں نہیں کرتی؟ کیا فوج اس حقیقت سے واقف نہیں کہ عمران خان کی فکر کا ماخذ یہودیت سے مستعار ہے۔