قادیانی اور مسلمان

312

کارل مارکس کے نظریات کو سرمایہ دارانہ نظام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ایڈم اسمتھ کو کمیو نسٹ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر نظریہ کچھ بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ ان بنیادوں کو قبول کرنے والا ہی اس نظریے سے وابستہ کہلاتا ہے۔ اس کا پیرو کار باور کیا جاتا ہے اور اس نظریے کی شناخت اختیارکرسکتا ہے۔ رسالت مآبؐ کے بارے میں خاتم النبین اور ختم المرسلین کا عقیدہ اسلام کی بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ کہ عالی مرتبت محمدؐ کے بعد کسی شخص کو کسی بھی معنی ومفہوم، حیثیت اور شکل میں (ظلّی یا بُرُوزی) نبوت یا رسالت کا منصب مل سکتا ہے، ایسا شخص کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہوسکتا۔
پیپسی، کوک برانڈڈ مشروبات ہیں۔ دنیا کی کسی مشروب ساز کمپنی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے مشروب کے لیے ان ناموںکو اختیار کرے۔ ایسا کرنا جرم ہے۔ ہر ملک کا قانون اس کے خلاف حرکت میں آ جائے گا۔ وہ مشروب کوالٹی اور ذائقہ میں چاہے ویسی ہی خصوصیات رکھتا ہوتب بھی ایسا ممکن نہیں۔ اگرکوئی شربت کے مقابلے میں زہر بیچے اور اس برانڈ کا نام استعمال کرے، اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قادیانی ڈیڑھ ہزار برس سے موجود ایک ایسے مذہب کا برانڈ نام استعمال کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مزید تماشا یہ کہ وہ اصل برانڈ کے ماننے والوں کو کافر اور اپنے جعلی برانڈ کے پیروکاروں کو مسلمان اور احمدی مسلم کہتے ہیں۔ ساری دنیا میں اس شناخت کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس ڈاکا زنی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان ہی کے نہیں دنیا بھر کے قوانین ایسے ناموں، لفظوں، جملوں اور اصطلاحات کے استعمال کا تحفظ کرتے ہیں جن کا مخصوص مفہوم ہو، خاص معنی ہوں۔ دیگر معنوں میں یا مروجہ تشریح سے ہٹ کران کا استعمال تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے دھوکا اور فریب سمجھا جاتا ہے۔
یہودی سیدنا موسی ؑ اور توریت پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا انہیں مسلمان یا عیسائی کہا جاسکتا ہے۔ عیسائی سیدنا موسیؑ ، سیدنا عیسی ؑ، توریت اور انجیل پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا انہیں یہودی یا مسلمان پکارا جاسکتا ہے۔ مسلمان موسی ؑ، عیسی ؑ، محمد عربیؐ، توریت، انجیل اور قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا انہیں یہودی یا عیسائی خیال کیا جاسکتا ہے۔ قادیانی اگر موسیؑ، عیسیؑ، رسول کریمؐ، توریت، انجیل اور قرآن پر یقین رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی غلام احمد قادیانی کے نبی، مسیح موعود اور امام مہدی ہونے پر یقین رکھتے ہیں، جہاد کے خاتمے اور مرزا قادیانی کی لایعنی باتوں کو وحی تسلیم کرتے ہیں تو انہیں کیسے مسلمان سمجھا جاسکتا ہے؟
قادیانی بضد ہیں کہ انہیں قادیانیت کو بطور اسلام پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسلام کی محترم ومقدس شخصیات کے القابات اور خطابات کو مرزا قادیانی اور اس کے خلفا کے ناموں کے ساتھ چسپاں کرنے کا لائسنس دیا جائے۔ اس فریب کاری کو وہ اپنا اختیار گمان کرتے ہیں۔ قادیانی ایسا کیوں چاہتے ہیں۔ کیوں وہ دیگر مذاہب کی طرح خود کو غیر مسلم کہلوا کر سکون سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فریب کاری کے ذریعے قادیانی دنیائے اسلام سے بہت بڑی رقم، دولت اور فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اسے مسلمانوںہی کے خلاف استعما ل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو قادیانی اور مرتد بنانا ان کا مشن ہے۔
قادیانی خود کو مسلمان اور احمدی مسلم کہنے پر کیوں مصر ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہ ہے جو علامہ اقبال نے بیان فرمائی ہے۔ کہتے ہیں’’اس امر کو سمجھنے کے لیے کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں کہ مذہبی و معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرکے بھی وہ مسلمانوں میں رہنے کے لیے کیوں مضطرب ہیں، اس لیے کہ ان کی موجودہ 56000 کی آبادی انہیں کسی اسمبلی میں بھی کوئی نشست نہیں دلا سکتی اور انہیں سیاسی اقلیت کی حیثیت بھی نہیں مل سکتی، اس لیے انہوں نے اپنی جداگانہ سیاسی حیثیت کا مطالبہ نہیں کیا، نہ کبھی اس میں پہل کریں گے لیکن ملت اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کردیا جائے‘‘۔
اسٹیٹس مین دہلی کے اداریے کے جواب میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’اسلام کی بنیادی حدود مقرر ہیں۔ جن میں وحدت الوہئیت، انبیا ء کرام ؑپر ایمان، رسول اللہ ؐ کی ختم رسالت پر ایمان لانا، یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم وغیر مسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے کہ کوئی فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے آج تک کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا اور بحیثیت ملت رسول کریم سیدنا محمدؐ کی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے دو راہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلادیں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کرلیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں رہے تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں‘‘۔
امت مسلمہ کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ قادیانیوں کو اپنے سے جدا اور علیحدہ وجود سمجھے۔ کیتھولک کلیسا یا کوئی بھی چرچ اگر کسی شخص یا گروہ کو دین بدر، برادری سے خارج (excommunicate) یا کافر قرار دیدے تو اہل مغرب اسے تسلیم شدہ حقیقت باور کرتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ فلاں شخص یا گروہ اب ان کے مذہب اور چرچ کا حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل پابند ہے کہ اپنا وطن چھوڑ کر اسرائیلی شہری بننے کے آرزو مند یا ایسا مطالبہ کرنے والے یہودی کو اسرائیل کی شہریت دے۔ لیکن ترک وطن کے خواہش مند شخص کو اسرائیل اگر یہودی ماننے سے انکار کرتے ہوئے شہری حقوق دینے سے انکار کردے تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست اسرائیل کو اس بات کا حق حاصل ہے۔ خود قادیانیوں کا خلیفہ کسی شخص یا گروہ کو جماعت احمدیہ سے خارج قرار دیدے تو کوئی اسے احمدی نہیں مانتا۔ لیکن قادیانیوں اور مسلمانوںکے باب میں مغرب کا قاعدہ اور قانون جدا ہے۔ جامعہ ازہر اور جامعہ زیتونہ سے لے کر فلسطین اور حجاز کے مفتیان کرام، دیوبند اور بریلی سے لے کر پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے تیس ہزار سے زائد دینی مدارس، تمام مسالک اور مکا تب فکر بالاجماع قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب اور بہت سے دیگر اسلامی ممالک قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا حکم لگا چکے ہیں۔ 1974 میں مکہ میں رابطہ عالمی اسلامی کے تحت مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے اسلامی ممالک قادیانیوں کو باطل فرقہ ہونے کا فیصلہ دے چکے ہیں۔ لیکن مغرب، اہل مغرب، لبرل، سیکولر اور اسلام دشمن دانشوروں کے نزدیک مسلمانوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے دین کی حدود کو بیان کریں۔ اس کی تشریح اور تو ضیح کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانیت دینی مسئلہ ہے اور نہ مذہبی آزادی کا معاملہ۔ یہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کی جانے والی ڈرامے بازی، امت مسلمہ میں نقب لگانے کا آلہ اور مسلمانوں کو زچ کرنے کا ہتھیار ہے۔