1974کے بعد قادیانی ایک مرتبہ بار پھر پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہیں۔ مرزا مسرور قادیانی سے گزشتہ دنوں ان کے ایک پیرو نے سوال کیا ’’آپ کو امید ہے کہ عن قریب ہمارا مرکز پاکستان منتقل ہو جائے گا؟‘‘ مرزا نے جواب دیا ’’مرکز تو پاکستان منتقل نہیں ہوگا کیوںکہ ہمارا مرکز قادیان انڈیا میں واقع ہے البتہ مجھے امید ہے کہ پاکستان میں ہمارے لیے قانونی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ پاکستانی آئین میں مرزائیوں کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا‘‘۔
آئین پاکستان میں قادیانیوں کے لیے ایسی کیا مشکلات ہیں جنہیں وہ آسانیوں میں بدلنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کے خلاف ملک گیرتحریک چلی۔ 13دن کی طویل بحث اور قادیانیوں کا موقف سننے کے بعد7ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ قادیانیوں نے آئین پاکستان کی اس ترمیم کو تسلیم نہیں کیا۔ قادیانیوں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے صدر جنرل ضیا الحق کے دور 1984 میں قادیانیوں کو شعائر اسلام کی توہین سے روکنے کے لیے امتناع قادیانیت آرڈی ننس جاری کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298۔B اور 298۔C کا اضافہ کیا گیا اور قادیانیوں کو پابند کیا گیاکہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کرسکتا ہے۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کی ہدایت پر ان پا بندیوں کو مسترد کردیا۔ اس آرڈی ننس کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی قرار دیا اور اسے اعلی عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے تاریخی فیصلے ظہیر الدین بنام سرکار میں قرار دیا کہ ’’قادیانی غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر پیش کرکے اور شعائر اسلام استعمال کرکے دھوکا دینا چا ہتے ہیں اور اسلام کی عظیم ہستیوں کی دانستہ توہین کرنا چاہتے ہیں۔ اگر قادیانیوں کا دوسروں کو دھوکا دینے کا ارادہ نہیں تو وہ اپنے لیے نئے القابات کیوں وضع نہیں کر لیتے۔ آخر دنیا میں اور بھی مذاہب ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں یا دوسرے لوگوں کے القابات وغیرہ پر کبھی غاصبانہ قبضہ نہیں کیا بلکہ وہ اپنے عقائد کی پیروی اور اس کی تبلیغ بڑے فخر سے کرتے ہیں‘‘۔ آخر میں جج صاحبان اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر قادیانیوں کو شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ ’’سلمان رشدی‘‘ بنانے کے مترادف ہوگی۔
پاکستانی عدالتوں کے ان فیصلوں کے بعد قادیانیوں کے لیے پاکستان میں اپنی کاروائیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے مغرب اور دیگر ممالک کو اپنی سرگر میوں کا مرکز بنا لیا۔ مرزا طاہر نے مرکزی صدر دفاتر لندن منتقل کردیے۔ مغرب میں انہوں نے خود کو اعلانیہ احمدی مسلم کہا اور پہلا کام یہ کیا کہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر متعارف کرایا جہاں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انتہائی ظلم کیا جاتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ شکار قادیانی ہیں۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنا تعارف ایک ایسے اسلامی فرقے کی حیثیت سے کرایا جو اسلام کا مغرب کو مطلوب سافٹ امیج پیش کرتا ہے۔ جو جہاد کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ جو مغرب کے ساتھ جنگوں کے تصور سے بھی گریزاں ہے۔ انگریز حکومت کی اندھی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ حج مکہ مکرمہ سے ختم کرکے قادیان منتقل کرنا چاہتا ہے۔ شراب، افیون اور دیگر منشیات کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔ جو ختم المرسلینؐ کو ان کے مقام عالی سے بہت نیچے رکھنا اور دیکھنا چاہتا ہے۔ جو قرآن اور اسلام میں تبدیلیوں کے ان گنت دروازے کھو لتا ہے۔ اسلام کا یہ جھوٹا ایڈیشن مغرب کو خوب پسند آیا۔ اسرائیل میں قادیانیوں کے دعوتی مراکز اور مدارس کھل گئے۔ قادیانیت کے نام سے مجلہ نکالنے اور اپنا لٹریچر اور کتا بیں طبع کرکے پوری دنیا میں پھیلانے کے مواقع مستقل بنیادوں پر فراہم کیے گئے۔ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ افریقا میں قادیانیوں کے بے شمار مراکز ہیں جو صرف اور صرف لوگوں کو قادیانیت کی طرف بلانے میں مصروف ہیں۔ ہندوستان میں ہر جگہ مسلمانوں کو مارا اور برباد کیا جارہا ہے لیکن قادیان کی رونقوں کی طرف کسی کو دیکھنے کی جرات نہیں۔ مغرب کی عالمی عدالتوں اور دنیا بھر کی پارلیمنٹوں کے سربراہان سے قادیانیوں کے خصوصی مراسم اور رابطے ہیں۔ یورپ میں موجود مسلمانوں کو قادیانی بنانے کے لیے وہ کس درجے کوشاں ہیں ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ان کی کوشش ہے کہ تمام یورپین مسلم کی شناخت قادیانی کی حیثیت سے ہو۔
ان تمام کا میابیوں کے باوجود قادیانی پاکستان کو بھلانے کے لیے تیار نہیں جہاں ان کی اکثریت رہائش پزیر ہے۔ جہاں انہیں بے پناہ اثر ورسوخ حاصل تھا۔ ظفراللہ خان پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ قادیانی تھا۔ پنجاب میں چنیوٹ کے قریب اس نے جگہ الاٹ کرائی جسے ربوہ کا نام دیا۔ وہ ربوہ کو قادیانیوں کا عالمی مرکز بنانا چاہتا تھا۔ بھٹو نے جس وقت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے مسودے پر دستخط کیے اس وقت چیف آف نیول اسٹاف حسن حفیظ احمد قادیانی تھا۔ آرمی کا ڈپٹی چیف عبدالعلی قادیانی تھا۔ فضائیہ کا سربراہ ظفر چودھری قادیانی تھا۔ یہ ظفر چودھری ہی تھا جس نے ربوہ میں مرزا ناصر قادیانی کے جلسے پر فضائیہ کے جہاز بھیج کر گل پاشی کرائی اور سلامی دی تھی۔ بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والا مسعود محمود قادیانی تھا۔ ان کامیابیوں اور اثر رسوخ کے بعد قادیانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ پا کستان میں قادیانیت کو کسی نہ کسی درجے میں نافذ کرسکتے ہیں لیکن بھٹو کی آئینی ترامیم نے ان کے خواب بکھیر دیے۔ بھٹو کو برسر اقتدار لانے میں قادیانی سمجھتے تھے کہ ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ بھٹو کے دور میں وہ خوب کھل کر کھیلے یہاں تک کہ نشتر میڈیکل کا لج کے طلبہ پر حملہ کردیا۔ اس کے رد عمل ہی میں ان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلی اور قادیانیوںکو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
نواز شریف اور ان کے بعض وزرا بھی قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اسمبلی میں قادیانیوں کے حق میں ایک ترمیم کی کوشش بھی کی تھی جس پر انہیں شدید مزاحمت اور بد نامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد قادیانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فضا ایک بار پھر ان کے لیے ہموار ہو گئی ہے۔ بھٹو کی طرح عمران خان کے وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے میں وہ اپنی کو ششوں کا بہت دخل سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے ارد گرد بھی قادیانی لابی بہت متحرک نظر آتی ہے۔ وزیراعظم بنتے ہی ان کے اولین اقدامات میں سے ایک عاطف میاں قادیانی کو وزیر خزانہ بنانا تھا۔ علماء کرام اور عوام کے دبائو پر انہیں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ جس پر ان کے کئی وزرا نے استعفا دے دیا تھا۔ وہ قادیانیوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ان کی پہلی بیوی جمائما کا بھائی زاک گولڈ اسمتھ قادیانیوں کے لیے بنائے گئے برطانوی پارلیمانی گروپ کا سربراہ ہے۔ یہودیوں کو قادیانی کس درجے محبوب ہیں، سب جانتے ہیں۔ ان کے دوستوں میں بھی قادیانی نواز لوگ موجود ہیں۔ سدھو جس کی مثال ہے۔ اس نے کہا تھا مسلمان کون ہوتے ہیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے۔ کرتار پور راہ داری کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے یہ قادیانیوں کو قادیان تک جانے کا راستہ دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ امریکی، اسرائیلی، بھارتی اور دیگر طاقتور لابیوں کی لابنگ سے قادیانی یہ پرو پیگنڈا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ دنیا سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتیں جب تک کہ پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر پابندی اور مذہبی منافرت پر مبنی آئینی ترامیم موجود ہیں۔ عمران خان جس طرح سیکولر، لبرل اور قادیانیوں سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے حصار اور امریکا اور مغرب کے دبائو میں ہیں اس کے بعد قادیانیوں کو امید ہے کہ وہ عمران خان کو آئینی ترامیم کے خاتمے کے لیے مجبور کرسکتے ہیں۔ بقول مرزا مسرور قادیانی ’’مرزائیوں کے لیے پاکستانی آئین میں ضرور کچھ نہ ہو کر رہے گا‘‘۔