برطانیہ کی حکمران ٹوری پارٹی نے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کو بھاری اکثریت سے پارٹی کا لیڈر منتخب کر لیا ہے جس کے بعد انہوں نے ٹریسا مے کی جگہ وزارت عظمیٰ سنبھال لی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ 55 سالہ بورس جانسن برطانیہ کے سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں کیوںکہ وہ عام انتخاب جیتے بغیر اس منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ بورس جانسن نے ٹوری پارٹی کے ایک لاکھ اسی ہزار اراکین میں سے 92 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مخالف امیدوار موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کو صرف 46 ہزار 6 سو 56 ووٹ ملے۔
کھلم کھلا اسلام دشمن اور چھپے نسل پرست بورس جانسن کے لیے سب سے بڑا چیلینج 31 اکتوبر سے پہلے یورپ سے علیحدگی کے فیصلہ پر عمل درآمد ہوگا جس میں ان کی پیش رو ٹریسا مے بْری طرح سے ناکام رہیں اور آخرکار انہیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ بورس جانسن کے انتخاب سے پہلے ہی ٹریسا مے کی کابینہ کے متعدد وزیر یہ کہہ کر مستعفی ہو چکے ہیں کہ وہ بورس جانسن کو وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں دیکھ سکتے۔ اس صورت حال میں بورس جانسن کو ٹوری پارٹی میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ ان کو پارلیمنٹ میں صرف 2 اراکین کی اکثریت حاصل ہے۔ حزب مخالف لیبر پارٹی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی تلوار لیے کھڑی ہے۔ عام خیال ہے کہ بورس جانسن کو تین ماہ بعد ہی عام انتخابات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی ان کے سامنے بہت سنگین مسائل ہیں۔ جن میں سب سے سنگین مسئلہ بریگزٹ کا ہے۔ بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے بریگزٹ کو خود مختاری دوبارہ حاصل کرنے کا نہایت جذباتی مسئلہ بنا دیا ہے اور ان کے حامی ہر صورت میں یورپ سے علیحدگی پر تلے ہوئے ہیں، اور انہوں نے اس بارے میں یورپی یونین سے مزید مذاکرات کی راہ مسدود کر دی ہے۔ ماہرین معیشت نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی سمجھوتے کے بغیر برطانیہ نے یورپ سے علیحدگی اختیار کی تو برطانیہ کی معیشت کو ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ پھر نئے وزیر اعظم کو خلیج میں ایران کے ساتھ فوجی کشیدگی کے خطرناک مسئلہ سے نبٹنا ہوگا جس نے جبرالٹر کے ساحل پر ایرانی تیل بردار جہاز پر قبضہ کے جواب میں برطانیہ کے پرچم بردار ٹینکر کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ صورت حال اس وجہ سے اور زیادہ سنگین ہے کہ برطانیہ کی بحریہ کی طاقت اتنی کم ہوگئی ہے کہ وہ اکیلے خلیج میں اپنے جہازوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ اس وقت برطانیہ کے 74 جہازوں میں صرف 22ایسے ہیں جن میں جنگ لڑنے کی صلاحیت ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اب برطانیہ خلیج میں اپنے جہازوں کی حفاظت کے لیے یورپ کی مدد کا خواست گار ہے اسی یورپ سے جس سے وہ نکلنے کے لیے بے تاب ہے۔
بورس جانسن، امریکا کے صدر ٹرمپ کے چہیتے ہیں جن کے بارے میں ٹرمپ بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ برطانیہ کے کامیاب وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ بورس جانسن، آیا بریگزٹ کے بعد امریکا سے آزاد تجارت کا سمجھوتا طے کرنے میں کامیاب ہوں گے جس پر برطانیہ امید لگائے بیٹھا ہے۔ پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر امریکا کی معرکہ آرائی کا بھی بورس جانسن کو سامنا کرنا پڑے گا۔
دیکھنا یہ بھی ہے کہ آیا بورس جانسن اپنے اس امیج کا اتار پھینکنے میں کامیاب ہوں گے جو ایک عادی دروغ گو، پوشیدہ نسل پرست، کھلم کھلا اسلام دشمن، مسخرے اور خود پرست اور خود غرض سیاست دان کے طور پر ان شخصیت پر لبادہ چڑھا رہا ہے۔ لوگ ابھی تک نہیں بھولے ہیں خاص طور پر برطانیہ کے مسلمان جب انہوں نے کہا تھا کہ برقع پوش خواتین لیٹر بکس اور بینک ڈاکو لگتی ہیں۔
رائے عامہ کے ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ٹوری پارٹی میں اسلام سے دشمنی اتنی شدید ہے کہ پارٹی کے دو تہائی اراکین کسی مسلمان کے وزیر اعظم بننے کے خلاف ہیں۔ بورس جانسن کے حق میں ٹوری پارٹی کے 92 ہزار سے زیادہ اراکین کے ووٹ سے پارٹی میں اسلام دشمنی اور نسل پرستی ثابت ہو گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بورس جانسن کی اسلام سے نفرت کے باوجود ان کے جد کا مسلم پس منظر رہا ہے۔ ان کے پر داد علی کمال ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے وزیر اعظم فرید پاشا کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے۔ لیکن 1908 میں سلطان عبد الحمید کے دور کے خاتمے کے بعد وہ وزارت سے محروم ہو گئے اور انہوں نے صحافت
اختیار کی۔ اس دوران 1922 میں اتا ترک کی فوج کے کمانڈر نے انہیں گرفتار کر کے ہلاک کر دیا۔ اپنی ہلاکت سے پہلے علی کمال نے لندن میں ایک انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی جس سے ان کے تین بچے ہوئے۔ ان میں ایک لڑکا جس کا نام عثمان کمال تھا اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور اپنا نام ونفرڈ جانسن رکھ لیا۔ ونفرڈ جانسن نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی تھی جن سے بورس جانسن کے والد پیدا ہوئے۔ بورس جانسن کی پیدائش امریکا میں ہوئی تھی لیکن جب وہ اپنے والد کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوئے تو انہوں نے امریکی شہریت منسوخ کر دی۔ بورس جانسن نے جو امیروں کے نجی اسکول ایٹن میں پڑھے ہیں اپنے کیریر کا آغازروز نامہ ٹائمز سے کیا تھا لیکن انہیں ایک جعلی خبر دینے پر ٹائمز سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں برسلز میں روزنامہ ٹیلی گراف کے نمائندے کی حیثیت سے ملازمت مل گئی اور اسی زمانہ میں یورپی یونین سے ان کی مخالفت پروان چڑھی تھی، یورپ کے خلاف جنونی انداز سے ٹیلی گراف اس قدر خوش اور ان کا گرویدہ تھا کہ انہیں ایک کالم پر پانچ ہزار پونڈ ادا کیے جاتے تھے۔ پھر وہ ٹیلی گراف کے ادارے کے جریدے اسپیکٹیٹر کے مدیر رہے۔ اسی زمانہ میں اس جریدے کی صحافی خاتون سے ان کے جنسی تعلقات کے اسکینڈل پر جریدے کے ایڈیٹر اینڈریو نیل نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ خواتین کے سلسلے میں وہ خاصے دل پھینک مشہور ہیں۔ بورس جانسن نے اپنی پہلی بیوی ایلگرا موسٹن کو جن سے 1987 میں شادی ہوئی تھی 1993میں طلاق دے کر چند ہفتے بعد ہندوستان میں بی بی سی کے نامہ نگار چارلس وہیلر کی صاحب زادی مرینا وہیلر سے شادی کی تھی۔ چارلس وہیلر کی دلی میں ایک سکھ خاتون سے شادی ہوئی تھی جن سے ان کی یہ بیٹی ہیں۔ ان سے بورس کے چار بچے ہوئے اور مرینا وہیلر سے شادی کے سولہ سال بعد 2009 میں نیوز آف دی ورلڈ نے یہ انکشاف کیا کہ بورس جانسن کے ایک کنسلٹنٹ ہیلن میکانٹائرکے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں اور ان کی ایک بیٹی ہے۔ اس انکشاف کے بعد مرینا وہیلر نے بورس جانسن کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد بورس جانسن روزنامہ انڈیپنڈنٹ کے بانی کی بیٹی کیری سیمنڈس
کے ساتھ رہ رہے تھے پچھلے دنوں ان دونوںمیں چیخم دھاڑ اور اس بْری طرح سے جھگڑا ہوا کہ پڑوسیوں کو پولیس طلب کر نی پڑی۔ ابھی تک یہ پتا نہیں چلا کہ اس جھگڑے کی وجہ کیا تھی۔ غرض برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے اتنے اسکنڈل ہیں کہ ان پر کئی ناول لکھے جا سکتے ہیں۔
بورس جانسن نے 1992 اور 1997 میں پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 2001 میں وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن لندن کے میئر کے انتخاب کے لیے وہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہوگئے اور 2008 سے 2016 تک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ لندن کے مئیر کے انتخاب کے بعد جب وہ پارلیمنٹ کے رکن بنے تو اس زمانے میں وہ کٹی پتنگ کی مانند تھے پارٹی میں انہیں کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ اس زمانہ میں ان کے قریبی دوست کہتے تھے کہ خود بورس جانسن یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کبھی وزیر اعظم کا عہدہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ 2017 میں جب ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد ٹوری پارٹی کے لیڈر کا انتخاب ہوا تو شروع میں بورس جانسن امیدوار تھے لیکن انہوں نے انتخاب سے پہلے ہی اپنا نام واپس لے لیا کیوںکہ انہیں انتخاب جیتنے کی امید نہیں تھی اس انتخاب میں ٹریسا مے وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ بورس جانسن نے بعد میں اپنا نام واپس لینے کے فیصلے پر تاسف کا اظہار کیا تھا اور جب سے وہ ٹریسا مے کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آخر کار وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کوشش میں تو بورس جانسن کامیاب رہے لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ کتنے کامیاب رہیں گے اس کے بارے میں مبصرین کو بورس جانسن کی بے ہنگم شخصیت سے بہت کم توقع ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن برائون کی پیش گوئی ہے کہ بورس جانسن، متحدہ برطانیہ کے آخری وزیر اعظم ثابت ہوں گے کیوںکہ ان کے دور میں برطانیہ متحد نہیں رہ سکے گا اور سب سے پہلے اسکاٹ لینڈ برطانیہ سے الگ ہوگا۔ پچھلے ریفرینڈم میں اسکاٹ لینڈ کے عوام کی اکثریت نے یورپ میں برقرار رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ شمالی آئرلینڈ بھی جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ دوبارہ الحاق کی کوشش کرے گا کیوںکہ جمہوریہ آئرلینڈ کی طرح شمالی آئرلینڈ کے عوم کی اکثریت نے یورپ میں برقرار رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ویلز میں بھی قوم پرستی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔