ریاست ہائے متحدہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے منگل 2 جولائی 2019ء کو جاری کیے گئے بیان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مسلح علیحدگی پسند جماعت بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر پابندی عائد کرنے کا سرکاری اعلان کیا۔ امریکا کے ڈپارٹمنٹ آف ٹریژری نے بی ایل اے کو فار ایسٹ کنٹرول کی خصوصی لسٹ میں شامل کرلیا۔ بلوچستان کے اندر علیحدگی کی سوچ کی تاریخ پاکستان کی پوری عمر کے برابر ہے۔ انگریز کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت 1839ء سے 1915 تک جاری رہی، اپنے طرز کی سیاسی و فکری جدوجہد تقسیم ہند تک رہی۔ بعینہ ریاست قلات کے اندر خاندانی سیاست کے خلاف بھی سیاسی سوچ موجود تھی۔ چناںچہ 1920ء میں انگریزوں کی بالادستی اور ریاست پر شخصی و خاندانی حکمرانی کے خلاف تحریک سیاسی نظم میں ڈھل گئی۔ اس ضمن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ایک اہم حوالہ ہے، جس پر جولائی 1939 میں پابندی عائد کی گئی۔ رہنماء زندان خانوں میں ڈالے گئے۔ اظہارِ رائے پر قدغن کی صورتِ حال تھی۔ بہرحال اس موضوع کی تفصیل بہت طویل ہے۔ تقسیمِ ہند اور ریاست قلات کے پاکستان میں ادغام کے بعد بھی سیاست کی یہ رنگ و بُو موجود رہی۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی آغا عبدالکریم 1948ء میں اپنے حامیوں کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ ان کی تحریک کامیاب نہ ہوئی، وہ واپس آئے اورگرفتار ہوئے۔ گویا یہ شورش کی پہلی کوشش تھی جو دبادی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ علیحدگی پسند اور انتہا پسند رہنما آئین ِ پاکستان کا حلف لیتے ہوئے حکومتوں، عہدوں اور ایوانوں کا حصہ بھی بنتے رہے۔ 1970ء کی دہائی میںچوتھی شورش اْٹھی، پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ بلوچ اور پشتون علیحدگی کی تحریک کی پوری مالی وسیاسی امداد افغانستان سے ہورہی تھی۔ بھارت سرپرستِ اعلیٰ تھا۔ روس کی افغانستان میں گہری دلچسپی تھی، وہاں سے بھی ہر ممکن تعاون ہوتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پشتون، بلوچ علیحدگی کی تحریک کا ہمہ وقت سامنا تھا۔ جس نے ان سے رعایت نہ برتی۔ اگرچہ ان گروہوں کی وجہ سے نقصانات بھی اٹھائے گئے، لیکن جلد یہ تحریک قابو میں کرلی گئی۔ کئی رہنما جیلوں میں ڈالے گئے، جو ضیائی مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی رہا کردیے گئے۔
مختصر احوال یہ ہے کہ جب افغانستان پر روسی قابض ہوگئے تو قوم پرستوں کو پھر سے ہر طرح سے شہ ملی۔ پشتون حلقہ اثر کو سبوتاژ کی غرض سے استعمال کیا گیا۔ البتہ بلوچ قوم پرستوں نے اس دوران مسلح سیاست نہ کی۔ روسیوں کے نکلنے اور افغانستان میں طوائف الملوکی کے آغاز کے ساتھ ہی سخت گیر سوچ کے حامل بلوچ رہنما واپس پاکستان آنا شروع ہوگئے۔ نواب خیر بخش مری مرحوم، اور ان کے صاحبزادے بھی لوٹے، سیاسی عمل کا حصہ بنے۔ چناںچہ 1990ء کی دہائی میں اِکا دْکا واقعہ رونما ہوجاتا، خفیہ طور پر فکری نشستوں کا اہتمام ہوتا، دیواروں پر چاکنگ گوریلا جنگ کی دکھائی دیتی۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پاکستان پوری طرح سے افغانستان کے معاملات سے بے دخل کردیا گیا اور بھارت آکر بیٹھ گیا تو اس کے ساتھ بلوچ علیحدگی کی خفیہ طور پر داغ بیل ڈالی گئی۔ مختلف علاقوں میں تربیتی کیمپ بنائے گئے۔ بالاچ مری کی قیادت میں بی ایل اے پھر سے منصہ شہود پر آگئی۔ بالاچ مری 2002ء کی اسمبلی کے رکن تھے۔ اسی دوران پہاڑوں پر چلے گئے۔ یوں ایک پْرآشوب و تباہ کن دور کا آغاز ہوا۔ بلوچ سیاست میں ترش مزاجی در آئی۔ 26 اگست2006ء کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نواب بگٹی کا پوتا براہمداغ بگٹی افغانستان فرار ہوگیا۔ بالاچ مری بھی افغانستان چلے گئے۔ تخریبی سرگرمیوں میں تیزی آگئی اور بلوچستان کے اندر گویا ریاستی مشنری مفلوج ہوکر رہ گئی۔ صوبے کے غالب حصے پر گویا علیحدگی پسندوں کا راج قائم ہوا۔ رفتہ رفتہ ان کے خلاف ایکشن بڑھتا گیا اور انہیں پیچھے دھکیلنے کا عمل شروع ہوا۔ بالاچ مری افغانستان میں انتقال کر گئے۔ بی ایل اے کی کمان حیربیار مری نے سنبھال لی۔ کچھ عرصے بعد ان کے چھوٹے بھائی زامران مری نے اپنی الگ تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے قائم کرلی۔ اسی دوران آواران سے تعلق رکھنے والے متوسط گھرانے کے سیاسی کارکن ڈاکٹر اللہ نذر نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے نام سے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ یہ تنظیم نوابوں اور سرداروں کے بجائے ایک عام بلوچ سیاسی رہنما و کارکن کی قیادت میں تھی، جس نے پزیرائی حاصل کرلی۔ حال ہی میں بی ایل اے سے الگ ہونے والے اسلم اچھو نے الگ دھڑا قائم کرلیا تھا۔ گویا اس کی کمان بھی ایک عام بلوچ کارکن کے ہاتھ میں آگئی۔ اسلم اچھو دسمبر 2018ء میں قندھار میں ایک مبینہ بم دھماکے میں ہلاک ہوگیا۔ دراصل اچھو ہی نے نومبر 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کروایا۔ پیش ازیں اگست 2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئروں اور مزدوروں کی بس پر حملے کا خودکش بمبار اسلم اچھو کا بیٹا تھا، اور مئی 2019ء میں گوادرکے پنج ستارہ ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے اندر بھی اسی تنظیم کے مسلح لوگ گھس گئے تھے۔
سردار اختر مینگل کے بھائی میر جاوید مینگل لشکرِ بلوچستان کے سربراہ ہیں۔ غرض بی ایل اے پر یہ پابندی تمام بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ یہ تنظیمیں دوسرے ممالک میں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کے خلاف مظاہرے منعقد کرتی ہیں۔ برطانیہ کے اندر کرکٹ گرائونڈ کے اوپر پاکستان اور افغانستان کے میچ کے دوران جہاز کے ذریعے بینرز گرائے گئے، جن پر ’’جسٹس فار بلوچستان‘‘ لکھا ہوا تھا۔ تب گرائونڈ کے اندر اور باہر افغان شائقین کی غیر اخلاقی، مارپیٹ کی کوششیں اور اودھم بھی سمجھ سے بالاتر نہیں۔ یقینا بھارت ہی استادِ کبیر ہے، اور اب پشتون تحفظ موومنٹ کے ذریعے الگ طریقے کی آزمائش کی جا رہی ہے۔ بی ایل اے اور بی ایل ایف کی جانب سے امریکی پابندی کے اعلان پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور اپنے بیان و خطوط میں امریکا کو فیصلہ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یقینی طور پر یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ خطے کی سیاست نے ایک اور انگڑائی لی ہے۔ افغانستان میں صورتحال بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ لہٰذا اب ضروری ہے کہ بلوچ جلا وطن علیحدگی پسند رہنما بھی واپسی کی سوچ لیں۔ صلح پاکستان ہی کے مفاد میں ہے، اس لیے پہل ریاست کرے، ان رہنمائوں کو بہرطور ملک واپسی پر آمادہ کیا جائے۔ سردار اختر مینگل اس حوالے سے پْرامید ہیں کہتے ہیں ’’بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اب بھی مذاکرات کی طرف لایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ریاست اس بارے میں ماحول تیار کرے۔ ان کو لانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کو احساس دلانا ہو گا کہ سرکار بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔ (5 جولائی 2019ء) کالعدم تنظیموں کے حوالے سے پسند و ناپسند کی پالیسی فائدہ مند نہیں ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض کالعدم تنظیمیں دوسرے ناموں سے سیاسی اور فلاحی کام کا آغاز کردیتی ہیں، جو دہرا معیار ہے۔