کسے وکیل کریں

238

 

 

وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران میں سب سے اہم بات کشمیر کے ایشو کو اٹھانا رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہ مسائل کا انبار ہی ہے جس کی وجہ سے اس قسم کے دوروں میں ہر سربراہ مملکت نفسہ نفسی کا شکار ہوکر نفسی نفسی کر رہا ہوتا ہے اور اس کی گفتگو کا سارا محور پاکستان اور اس کے مسائل ہی بن کر رہ جاتے ہیں اور اس نفسی نفسی کی تکرار میں کشمیر کا مسئلہ ذہن سے یا تو محو ہوجاتا ہے یا پاکستان کے باقی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اتنا وقت ہی نہیں بچ پاتا کہ پاکستان سے تھوڑا سا باہر نکل کر کشمیر کے مسئلے کی جانب بھی کچھ بات کر لی جائے۔ وزیر اعظم پاکستان نے امریکی صدر سے ملاقات کے دوران میں یقینا پاکستان کو درپیش خطرات اور مسائل کا ذکر لازماً کیا ہوگا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے اہم موقع پر کشمیر کے سلگتے ایشو کو بھی فراموش نہیں کیا اور امریکی صدر سے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کریں تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ پاکستان کی اس امن کوشش کو سراہتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی پیشکش پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے مابین ثالثی کا کردار ادا کریں، وہ (وزیر اعظم پاکستان) اپنی جانب سے انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن بد قسمتی سے انڈیا نے کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیان پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ ’’انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ امریکا مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرے اور اس معاملے پر انڈیا کی مستقل پوزیشن یہی رہی ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اسی وقت ممکن ہوں گے جب وہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی ختم کرے‘‘۔
کشمیر کے سلسلے میں انڈیا مسلسل ’’میں نہ مانوں‘‘ کی گردان ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا کشمیر کے مسئلہ کو اٹھانا ایک مستحسن قدم سہی لیکن براہ راست امریکی صدر سے ثالثی کا کردار کرنے کی پیشکش کو قبول کرنا شاید کسی طور مناسب بات نہیں تھی۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں گزشتہ 70 دہائیوں سے شامل ہے۔ اگر پاکستان اس مسئلے کو کسی اور ڈیمانڈ میں اٹھاتا ہے تو اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں پہلے سے موجود قراردادیں ’’رد‘‘ سمجھی جاسکتی ہیں۔ کشمیر اب دو یا تین ممالک کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ میں قراردادیں پیش ہونے کی وجہ سے اقوام عالم کا مسئلہ بن چکا ہے اور تمام اقوام کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو پیش کی گئیں قراردادوں کے مطابق حل کریں۔ وزیر اعظم کا اخلاص نیت اپنی جگہ اور صدر ٹرمپ کی پیشکش کو بھی ہم غیر مخلصانہ نہیں سمجھتے ہوئے بہتر یہی خیال کرتے ہیں کہ کشمیر جیسا سلگتا ایشو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق ہی حل ہو ورنہ ممکن ہے کہ یہ ایشو ہمیشہ ایک متنازع مسئلہ بن کر رہ جائے۔
یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکا کا اس بارے میں ایک عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ ایک دو طرفہ مسئلہ ہے جو دونوں ملکوں کو باہمی رضا مندی کی سطح پر حل کرنا چاہیے۔ لہٰذا اچانک صدر ٹرمپ کا اس مسئلہ پر یوٹرن غور طلب بھی ہے۔ اس لیے بقول شاعر اس بات پر اس لیے بھی غور کر لینا چاہیے کہ
مجھ تک کب اس کی بزم میں آیا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ہمیں یہ بات کسی طور فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ موزیوں کا ایک منہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے کھانے اور دکھانے کے دانت ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جہاں کشمیر کے مسئلے پر سیر حاصل بات کی وہیں افغانستان کا بھی ذکر کیا۔ امریکا کا کردار ہمیشہ سے ہی چاپلوسانہ رہا ہے۔ افغان وار میں روس سے نمٹنے کے لیے وہ جس طرح پاکستان کے آگے بچھا جارہا تھا اور مجاہدین اسے خدائی مدد نظر آرہے تھے، مقصد براری کے بعد وہی سارے جہادی اس کی نگاہ میں شیطان صفت اور دہشت گرد بن گئے اور ان کو کچلا جانا اس کی اولین ترجیح قرار پایا۔ یہ بات اس ثبوت کے لیے کافی ہے کہ موزی موزی ہوتا ہے اور وہ کسی بھی وقت ڈسنے سے نہیں چوک سکتا۔ عمران ٹرمپ ملاقات کے دوران جہاں صدر ٹرمپ نے افغانستان میں بھی پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’پاکستان اس وقت افغانستان میں ہماری بہت مدد کر رہا ہے‘‘۔ وہیں یہ بھی فرمادیا کہ ’’اگر میں چاہتا تو یہ جنگ میں ایک ہفتے میں جیت جاتا مگر میں ایک کروڑ لوگوں کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ ورنہ افغانستان صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ مگر میں وہ راستہ اپنانا نہیں چاہتا‘‘۔ کیا اس ’’فرمان‘‘ میں رعونت اور کھلی دھمکی پوشیدہ نہیں؟۔ ایک جانب وہ پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب اپنے اندر چھپی فرعون صفتی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسا ملک جس کی نظر میں انسانوں کا قتل عام ایک تماشا ہو اور انسانوں کا بہتا خون جس کے لیے وجہ تسکین و راحت ہو وہ یہ کہہ رہا ہو کہ مجھے انسانی جانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں افغانستان کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا کر رکھ دیتا، کھلی دھمکی اور دھونس نہیں تو اور کیا ہے؟۔ ایسی ہی انسان دوستی پر برطانوی حکومت پر طنز کرتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے اپنی ایک مشہور نظم میں کچھ یوں ارشاد فرمایا تھا کہ۔
ادعائے پیروی دین و ایماں اور تو
دیکھ اپنی کوہنیاں جن سے ٹپکتا ہے لہو
افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دینے کے بعد، شہر کے شہر اُجاڑ دینے اور انسانی خون کو پانی کی طرح بہا دینے کے بعد ٹرمپ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے انسانی جانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں پورے افغانستان کو خاک و خون میں نہلا کر رکھ دیتا۔ ٹرمپ کے اس انداز فرعونیت کے جواب میں عمران خان کا یہ فرمانہ کہ ’’افغانستان کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘، ایک بہت مدبرانہ جواب ہے۔ اگر طاقت ہی ہر مسئلے کا حل ہوا کرتی تو آج امریکا جیسا سر پْر غرور طالبان کے آگے مذاکرات کے لیے نہ جھکا ہوا ہوتا۔ گو کہ ایسا ممکن نہیں کہ صدر ٹرمپ یا امریکا نے پاکستان کے سامنے اپنے لحاظ سے کوئی فہرستِ ’’ڈومور‘‘ نہ رکھی ہو کیونکہ صدر امریکا کی دربار طلبی سے قبل امریکا کے مسٹر ’’لنڈے‘‘ کافی دیر تک پاکستان ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ملاقات تضیعِ اوقات یا ناونوش کے لیے تو ہوئی نہیں ہوگی لیکن مبصرین کا محتاط تبصرہ یہی ہے کہ مجموعی طور پر یہ ملاقات بہت حد تک مثبت رہی اور امریکا کی جانب سے مزید فرمائشی پروگرام نہیں چلایا گیا۔ اس ملاقات کے پاکستانی سیاست اور معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والے ماہ و سال ہی کر سکیں گے اس لیے وقت کا انتظار کیے بنا کوئی اور راستہ بھی نہیں۔