وزیر اعظم پاکستان جنابِ عمران خان کے دورۂ امریکا کی اہم مصروفیات اختتام کو پہنچ گئی ہیںاور وہ وطن واپس آگئے ہیں، میڈیا کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن ارینا میں بیس ہزار سے زائد پرجوش پاکستانیوں کے مجمع سے انہوں نے خطاب کیا، ان کی اکثریت مڈل کلاس کے پرجوش نوجوانوں پر مشتمل تھی، اس کا کریڈٹ یقینا عمران خان اور امریکا میں اُن کی پارٹی کے لوگوں کو جاتا ہے، کیوںکہ اس سے پہلے کسی پاکستانی سربراہِ ریاست وحکومت نے امریکا میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے مجمع سے خطاب نہیں کیا۔ اس پر تجزیہ کار بحث کرتے رہیں گے کہ وزیرِ اعظم کا خطاب ایک متفقہ قومی رہنما اور عالمی مُدَبِّر کے طور پر ہونا چاہیے تھا، اُن کے خطاب کو قومی وحدت کا آئینہ دار ہونا چاہیے تھا، جبکہ انہوں نے خالص پاکستانی انداز میں جارحانہ خطاب کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا۔ مگر یہ عمران خان کا دردِ سر نہیں ہے، اُن کا مزاج اور نفسیات ایک خاص سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، اُن کے لیے اِس نفسیاتی ساخت سے نکل کر ایک قدآور اور سب کے لیے قابلِ احترام قومی رہنما بننا آسان نہیں ہے، وہ اپنے آپ کو ایک جارح اور عدیم ہاشمی کے اس شعر کا مظہر بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں:
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے
اس لیے یہ خواہش پوری ہونا مشکل ہے کہ وہ اپنے آپ کوکم از کم بیرونِ ملک سب کے لیے قابلِ قبول ایک قومی رہنما کے طور پر پیش کریں جس کے کاندھوں پر ذمے داریوں کا بوجھ اور جو مسائل کے منجدھار میں پھنسی قوم کی کشتی کا ناخدا ہے اور جسے قوم کی نیا کو پار لگانے کے لیے ہر ایک کا تعاون درکار ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں مقتدرہ کی پوری حمایت حاصل ہے، اس لیے انہیں کسی کی پروا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ مقتدرہ کو ایک مقبول عوامی رہنما کی تلاش تھی، جس کے ذریعے نامقبول اور مشکل فیصلے کیے جاسکیں تاکہ قوم کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کی کوئی تدبیر ہوسکے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کا وقتی اور ظاہری تاثّر مثبت رہا، بظاہر ماحول میں کوئی تنائو نہیں تھا، کھلے ڈلے ماحول میں بات چیت ہوئی، شاید اس کے لیے پسِ پردہ تیاری کرلی گئی تھی، دونوں فریق ایک دوسرے کے مطالبات اور موقف سے آگاہ تھے اور یہ بھی معلوم تھا کہ اُن کے پاس سیاسی سودے بازی کے امکانات کیا ہیں۔ 2020ء کے انتخابات کے لیے صدر ٹرمپ اپنی مہم شروع کرچکے ہیں، انہیں افغانستان کی دَلدَل سے باعزت طور پر اور شکست یا ناکامی کے تاثر سے بچ کرنکلنے کے لیے محفوظ راستہ درکار ہے تاکہ جاری انتخابی مہم میں وہ قوم کے سامنے اپنے آپ کو ایک نجات دہندہ اور مردِ بُحران کے طور پر پیش کرسکیں۔
نیز میڈیا سے ناراضی دونوں رہنمائوں میں قدرِ مشترک ہے، لہٰذا اس حوالے سے امریکا میں عمران خان پر جو ایک نفسیاتی دبائو پڑ سکتا تھا، ٹرمپ کی مہربانی سے وہ اس سے محفوظ رہے، کیوںکہ دونوں کا مزاج ایک جیسا ہے۔ بلا سوچے سمجھے اور نتائج کی پروا کیے بغیر بول پڑنے کی روش بھی دونوں رہنمائوں میں قدرِ مشترک ہے، تاہم عمران خان کی پریس کانفرنس عمدہ تھی اور اس میں انہوں نے کوئی غیر محتاط بات نہیں کی، یہ پاکستان کے لیے ایک اچھی علامت ہے، نیز انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ بااعتماد لہجے میں بات کی، یہ بھی پاکستان کے لیے نیک فال ہے۔ تاہم جو کچھ ظاہربیں نظروں نے دیکھا، یہ مَظاہر ہیں، اصل نتائج مسئلہ افغانستان میں پیش رفت، باہمی اعتماد اور پاکستان کے مطلوبہ کردار کے ذریعے مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کے مشیروں نے مشورہ دیا ہوگا کہ کشمیر پر مصالحت کے حوالے سے بھی ایک آدھ جملہ کہہ دیں، کیوںکہ یہ پاکستانیوں کی نفسیاتی کمزوری ہے، سو ٹرمپ نے وہ پتا بھی پھینک دیا، اس پر بھارت چیں بہ جبیں ہے، لیکن کسی عملی پیش رفت کا امکان کم ہے۔ پاکستانیوں کی خواہش تھی کہ ہمارے وزیرِ اعظم ٹرمپ سے عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بھی کوئی بات کریں، سو عمران خان نے یہ خواہش پوری کردی اور عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے میں امریکی جاسوس شکیل آفریدی کی رہائی کی پیشکش کی ہے، نیز افغانستان میں دو امریکی اور ایک آسٹریلوی مَغویان کی فوری رہائی کی امید دلائی ہے۔ ٹرمپ نے بالواسطہ دھمکی بھی دی ہے: ’’میں ایک ہفتے میں جنگ جیت سکتا ہوں، لیکن اس میں ایک کروڑ جانیں تلف ہوں گی اور میں یہ نہیں چاہتا، گویا اس انتہائی اقدام سے پاکستان بچاسکتا ہے‘‘۔ اسی طرح ترجمان نے چین کے حوالے سے بعض تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف کا ہیڈ کوارٹر ہالینڈکے شہر دی ہیگ میں ہے، جس عمارت میں یہ عدالت قائم ہے، وہ پیس پیلس کہلاتی ہے۔ 17جولائی 2019ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان پر انڈیا کی جانب سے دائر مقدمے کے فیصلے کا اعلان صدرِ عدالت جسٹس عبدالقوی احمد یوسف نے کیا۔ اس عدالت کے پندرہ مستقل جج ہیں اور پاکستان کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس تصدق حسین جیلانی ایڈہاک جج تھے۔ پاکستان کے خلاف ہندوستان کے دعوے کے مرکزی نکات یہ تھے: (۱) یہ مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں قابلِ سماعت ہے اور یہ عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے، (۲) ویانا کنونشن کے تحت پاکستان نے بھارتی شہری کلبھوشن یادو کو گرفتار کرنے کے بعد بھارت کو بروقت مطلع نہیں کیا، (۳) پاکستان نے بھارتی قونصلر کو اپنے شہری تک رسائی نہیں دی، (۴) پاکستان نے ملزَم کو قانونی معاونت فراہم نہیں کی یا بھارت کو اس کا موقع نہیں دیا۔
پاکستان کا موقف یہ تھا: (۱) کلبھوشن یادو بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر تھا، اس کا سروس ریکارڈ اس پر شاہد ہے، وہ اعترافِ جرم بھی کرچکا ہے، (۲) کلبھوشن یادو کو انڈین گورنمنٹ نے حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے پاسپورٹ جاری کیا اور اس پاسپورٹ پر اس نے کئی سفر کیے، (۳) کلبھوشن یادو بھارتی جاسوس تھا اور وہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف بغاوت اور علیحدگی کی تحریک کو ابھارنے پر مامور تھا، (۴) جاسوس ہونے کی بنا پر وہ ویانا کنونشن کے تحت کسی رعایت کا مستحق نہیں تھا، لہٰذا بھارتی حکومت کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں قابلِ سماعت نہیں ہے اور یہ عدالت کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا۔
ان نکات کا فیصلہ پندرہ اور ایک کے تناسب سے عالمی عدالتِ انصاف نے بھارت کے حق میں دیا اور قرار دیا کہ بھارتی شہری کلبھوشن یادو کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36پیرا گراف 1A اور 1B کے تحت مراعات حاصل ہیں، جبکہ پاکستانی وکیل جناب خاور قریشی نے اس کی نفی کی اور عدالت سے کہا کہ وہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36/1A,1B کی اس حوالے سے تشریح کرے۔ ایک جج کنکارڈوٹرنڈاڈ نے فیصلے میں اپنا الگ نوٹ بھی لکھا، لیکن پاکستان کے موقف کی حمایت نہیں کی۔ پاکستان کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان اس مقدمے کے لیے ایڈہاک جج تھے، سو انہوں نے تمام نکات میں باقی پندرہ ججوں کے موقف سے اختلاف کیا اور پاکستانی موقف کی تائید کی۔
ہماری رائے میں عالمی عدالتِ انصاف کا یہ فیصلہ قانونی معیارات سے زیادہ سیاسی ہے، کیوںکہ عالمی عدالتِ انصاف کو معلوم ہے کہ اُس کے پاس اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے، سو اُس نے مناسب سمجھا کہ کوئی ایسا فیصلہ نہ دے جو بے اثر ثابت ہو اور جس میں اُس کی سُبکی ہو، لہٰذا اُس نے سیاسی فیصلہ دینا مناسب سمجھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اسے اپنی اپنی فتح سے تعبیر کیا اور اس پر خوشی منائی۔
اب اگر کوئی کہے کہ جب عالمی عدالتِ انصاف نے تمام تصفیہ طلب نکات میں متفقہ طور پر بھارت کے موقف کی تائید کی تو اسے پاکستان کی فتح کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن یادو کے بھارتی جاسوس ہونے کی نفی نہیں کی اور اس بارے میں سکوت اختیار کیا، اسے بالواسطہ پاکستان کے موقف کی تائید قرار دیا جاسکتا ہے، نیز عدالت نے مجرم کلبھوشن یادو کی نہ برأت کا فیصلہ کیا اور نہ اُس کی سزا کو ختم کیا، اس کے بارے میں بھی عدالت کے سکوت کو بالواسطہ پاکستانی موقف کی تائید قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ عدالت نے پاکستان سے اس کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے کہا، عدالت کے الفاظ یہ ہیں: ’’عدالت قرار دیتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی صوابدید کے مطابق زیادتیوں کا ازالہ کرے اور فیصلے پر مؤثر طریقے سے نظرثانی کرے، جرم اور سزا کے مسئلے کو دوبارہ طے کرے ‘‘۔ نیز عدالت نے یہ بھی کہا: ’’پاکستان بھارتی شہری تک بھارتی قونصلر کو رسائی دے اور قانونی معاونت کی سہولت فراہم کرے‘‘۔
اس فیصلے کی رو سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو عالمی عدالتِ انصاف نے براہِ راست کوئی ریلیف نہیں دیا، بلکہ پاکستان سے کہا کہ وہ خود اس پر نظر ثانی کرے۔ پاکستانی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں گے۔ نیز عالمی عدالتِ انصاف نے پاکستان پر یہ بھی لازم قرار نہیں دیا کہ نظرِ ثانی کا عمل سول عدالت میں ہو، کیوںکہ بھارت کا مطالبہ یہی تھا، مگر عالمی عدالتِ انصاف نے بھارت کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا اور اسے پاکستان کی صوابدید پر چھوڑا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق مقدمے پر نظر ثانی کرے۔ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے اطمینان بخش ہے، ایک طرح سے عالمی عدالتِ انصاف نے دونوں ممالک کی فیس سیونگ کرکے اپنے سر سے بوجھ اتار دیا ہے۔
البتہ اس نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36پیراگراف 1Aاور1B کے تحت جاسوس کو بھی ریلیف دیا ہے، یہ مستقبل میں حساس مقدمات میں عالمی عدالتِ انصاف کے لیے ایک ایسی نظیر بن سکتا ہے جس سے عہدہ برآ ہونا اُس کے لیے مشکل ہوجائے گا، کیوںکہ برتر عالمی طاقتیں اس کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ سیاسی فیصلہ ہے، انصاف اور قانون کی اعلیٰ اقدار پر مبنی نہیں ہے، بلکہ عدالت نے ایک درمیانی راستہ نکالا ہے۔
اس مقدمے میں پاکستان کی قانونی نمائندگی اٹارنی جنرل جناب انور منصور خان اور جناب خاور قریشی کوئینز کونسل رکن ’’بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز‘‘ نے اور بھارت کی نمائندگی ہریش سالوے سینئر ایڈوکیٹ اور ان کے معاونین نے کی۔ یہ فیصلہ انگلش اور فرنچ دو زبانوں میں ہے، بیالیس صفحات پر مشتمل ہے اور سات صفحات پر مشتمل اس کا ایک غیر سرکاری پریس ریلیز بھی نیٹ پر موجود ہے۔