حضرت مولانا نے ایک فٹ پاتھی ہوٹل کھولا۔ گاہک دھڑا دھڑ آنے لگے۔ چٹائی پر بیٹھ کر نان چھولے کھاتے گاہکوں کو آدابِ طعام ملحوظ رکھنے کی تلقین حضرت صاحب بڑے شدّ ومد سے کرتے تھے:
’’ارے میاں ہاتھ دھویا بھی یا نہیں؟ … جاؤ پہلے سامنے ٹنکی سے ہاتھ دھو کر آؤ‘‘۔
’’ہائیں ہائیں … یہ کیا کرتے ہو؟ … او بھائی دائیں ہاتھ سے روٹی توڑو، دائیں ہاتھ سے‘‘۔
’’بسم اللہ پڑھو… بسم اللہ پڑھو… بھئی بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا کرو‘‘۔
وغیرہ وغیرہ۔ ہر ایک کے سر پر آئے ہوئے حضرت صاحب اور بوکھلائے ہوئے گاہکوںکے مناظر دیکھ کر پروفیسر صاحب اکثر ہنسا کرتے تھے:
’’غالباً یہ دنیا کا واحد ہوٹل ہوگا، جہاں لوگ پیسے دے کر آدابِ طعام سیکھنے چلے آتے ہیں‘‘۔
یہ بات ہمیں اُس روز، اُس پُر ہجوم تربیتی پروگرام کے شرکا کی تعداد دیکھ کر خود بخود یاد آگئی۔ خاص کرکے یاد نہیں کی تھی۔ ہم نے سوچا کہ ہمارے ملک کی سبھی سیاسی جماعتیں عوام کو اپنے پروگراموں میں بس اپنی ’مطلب براری‘ کے لیے مدعو کیا کرتی ہیں۔ لوگ آئیں، حاضری بڑھائیں، ٹھاٹھیں مارتے ہجوم کی رونق میں اضافہ کریں۔ اور جب ووٹ دینے کا موقع آئے تو اسی طرح جوق در جوق آکر ووٹ بھی ڈال جائیں۔ یوں عوامی تائید سے ہم تو اسمبلی میں یا ایوانِ اقتدار میں پہنچ جائیں، اس کے بعد عوام بھاڑ میں جائیں۔
یہ واحد جماعت ہے جو چاہتی ہے کہ اس کو پسند کرنے والے اور اس کے قریب آنے والے لوگ حُسنِ کردار کی دولت سے مالا مال ہو جائیں۔ ان کی سیاسی ہی نہیں، دینی تربیت بھی ہو۔ نظریاتی تربیت بھی ہو۔ کردار سازی ہو۔ تعمیر سیرت ہو۔ تربیت پاکر یہ لوگ خود اپنی اپنی جگہ روشن چراغ بن جائیں۔ پھر چراغ سے چراغ جلنے لگیں اور ہر طرف چراغاں ہو جائے۔ اس جماعت کے لوگ سب کی سیوا کرنے والے لوگ ہیں۔ مزدور ہوں، کسان ہوں، طلبہ ہوں، اساتذہ ہوں، بڑے تاجر ہوں، یا چھوٹے دکان دار ہوں۔ خواتین ہوں یا طالبات ہوں۔ مساجد کے مولوی ہوں یا مدارس کے طلبہ ہوں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ انہوں نے سب کی تربیت کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔
وہ پروگرام، دن بھر کا تربیتی پروگرام تھا۔ اس کے موضوعات متعین تھے۔ مقررین بھی طے شدہ تھے۔ سو، ایک کے بعد ایک نوآموز کی ناصحانہ او ر واعظانہ تقاریر نے سب کی مت مار کے رکھ دی تھی۔ آخر آخر میں تو لوگوں نے جماہیاں اور انگڑائیاں بھی لینی شروع کردی تھیں۔ عصر کی نماز کے بعد ایک نئے ناصح مشفق کی تقریر بڑے زور شور سے شروع ہوگئی:
واعظ کا ہر اِک ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر
…مگر ہم تین چار اہلِ شعر و سخن کے لیے سب سے زیادہ کوفت کی بات یہ تھی کہ تقریر میں جا بجا (بلکہ جا و بے جا) اشعار کی بھرمار تھی۔ ہمارے یہ شعلہ بیان مقرر جو شعر پڑھتے پہلے اس کی ٹانگ کا فریکچر فرماتے پھر اُسے اپنی زبان کی سان پر چڑھا کر اور اپنے تلفظ کے بانس پر ٹانگ کر سامعین کے حضور پیش کردیتے۔ اتنی محنت اور ایسی کوشش کرکے بے وزن شعر پڑھنا بھی ایک کمال ہے۔ جب ہم چاروں نے یہ دیکھا کہ:
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری
با کمالوں میں گھر گئے ہیں ہم
تو مذکورہ تینوں، چاروں اہلِ ذوق نے آنکھوں ہی آنکھوں میں باہم اشارے کیے اور یکے بعد دیگرے یوں ہڑبڑا، ہڑبڑا کر اُٹھے کہ گویا نہ اُٹھیں گے تو اپنے حوائجِ ضروریہ سے یہیں فارغ ہو جائیں گے۔ اس طرح اس چوکڑی کے ارکان ایک ایک کرکے خاموشی سے باہر نکل آئے۔
یہ پروگرام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک سرسبز و شاداب مقام پر واقع ایک خوب صورت عمارت میں ہو رہا تھا۔ عمارت سے باہر نکلے تو کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ سے گھرا ہوا ایک ’کیفے ڈی پھوس‘ ہمارا منتظر تھا۔ ’انجینئر آدمی‘ کا خیال تھا کہ یہاں کی چائے بہت لذیذ ہوتی ہے۔ سو، ایک کالم نگار، ایک پروفیسر، ایک انجینئر اور ایک نقاد، ایک درخت کے نیچے بچھی ہوئی ایک گول میز کے گرد آبیٹھے۔ بیٹھتے ہی تازہ تازہ ’دودھ پتی‘ بنانے کا آرڈر دے ڈالا گیا۔ تھے سب کے سب بزعم خود باذوق اور باادب، تو بھلا چپ کیسے رہ سکتے تھے؟ ایک کے بعد ایک پھلجھڑیاں چھوٹنی شروع ہوگئیں۔
بدلتے بدلتے زاویۂ فکر نے کئی پہلو بدلے اور بات اُس بے دلی تک آپہنچی جو آج کل کسی بھی تحریک کے کارکنان کا خاصہ بنتی جا رہی ہے۔ وہ مثالیں پیش کی جانے لگیں جب لوگ کسی ایک بات کا دل پر ایسا اثر لے لیتے کہ سنگ دل سے سنگ دل شخض کا دل بھی کسی بانس کی طرح اوپر سے نیچے تک چِر جاتا اور اُس کی پوری کی پوری زندگی بدل کر رہ جاتی۔
اس ضمن میں انجینئر صاحب نے ایک تازہ قصہ سنایا۔ کہنے لگے:
ایک رات ٹی وی پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ ایک مشہور و معروف گلوکار سے ان کے حالاتِ حیات پر بات ہو رہی تھی۔ ان صاحب کی زندگی بھی ایک بہت ہی معمولی سی بات نے بدل ڈالی تھی۔ انہوں نے خود یہ قصہ سنایا۔ کسی شہر میں ایک پُر ہجوم ’کنسرٹ‘ کے مہمانِ خاص تھے۔ فرمائشوں پر فرمائشیںآ رہی تھیں۔ گانوں پر گانے گائے جارہے تھے۔ حضرت گاتے ہوئے خود بھی تھرک رہے تھے اور ہجوم میں موجود ’خواتین و حضرات‘ کو بھی ’تھرکا‘ رہے تھے۔ ایک شوخ و شنگ گانا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ کسی قریبی مسجد سے انتہائی بلند آواز میں اذان شروع ہو گئی۔ گلوکار صاحب نے … (جانے کیا اُن کے جی میں آئی کہ) … اذان کے احترام میں گانا روک دیا۔ لوگ بے مزہ تو ہوئے مگر کسی میں کچھ کہنے کی جرأت پیدا نہ ہو سکی۔ جرأت کی، تو ایک ننھی سی بچی نے کی۔ اُس نے بڑے بھولپن اور بڑی معصومیت سے پوچھا:
’’انکل! آپ نے گانا کیوں روک دیا؟‘‘
انکل نے بچی کو سمجھایا:
’’بیٹا! اذان ہو رہی ہے، اس لیے گانا روک دیا ہے‘‘۔
بچی نے ضد بھرے انداز میں کہا:
’’اذان ہو رہی ہے تو کیا ہوا؟ انکل! آپ گائیں نا۔ آپ کو کون سا جنت میں جانا ہے؟‘‘
بس یہ آخری فقرہ سننا تھا کہ بانس اوپر سے نیچے تک چِرتا چلا گیا۔
اس قصے کا سب کے دل پر اثر ہوا۔ چائے پیتے ہی سب چپ چاپ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ واپس تربیتی پروگرام میں پہنچے تو ابھی تک وہی ناصحِ مشفق تقریر سرا تھے۔ مگر اب تقریر کی باگ اُن کے قابو سے باہر نکل چکی تھی۔ شعر پر شعر ٹھونکے جار ہے تھے۔ مغرب سے پہلے پہلے پروگرام ختم ہونا تھا۔ پروفیسر صاحب ہمارے کان کے پاس اپنا بھاپ چھوڑتا منہ لاکر پھسپھسائے:
’’مغرب کی اذان ہونے میں کتنی دیر باقی رہ گئی ہے؟‘‘
ہم نے گھڑی دیکھی اور وقت بتانے کے لیے اپنے جذبات کی تلخی کا گھونٹ بھرا:
’’صاحب! ابھی اتنی دیر باقی ہے کہ اس وقفے میں یہ حضرت پانچ چھہ مزید اشعار کی ٹانگیں توڑ سکتے ہیں‘‘۔
پروفیسر صاحب پھر اپنا منہ ہمارے کان کے قریب لائے:
’’تو کیا ہوا؟ توڑنے دیں نا ٹانگیں۔ انہیں کون سا جہنم میں جانا ہے… کہ کسی شاعر سے ڈریں‘‘۔