محمود غفار توزندہ ہیں……

232

کوئی مسئلہ نہیں مظفر بھائی۔ کچھ کرتے ہیں۔ اللہ بڑا ہے۔ یہ الفاظ ہیں ہمارے دوست سب کے دوست مہربان محمود عبدالغفار کے۔ ان کے پاس کوئی مسئلہ لے جائو کسی کی پریشانی کا معاملہ لے جائو اس شخص کے منہ سے انکار نہیں سنتے تھے۔ گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعدسے ملک میں کاروبار برآمدات وغیرہ میں ہر فرد محتاط ہوگیا تھا برآمدات بھی کم ہوتی جارہی تھیں چاول کے بہترین ایکسپورٹر کا اعزاز رکھنے والے نے چاول کی ایکسپورٹ بھی چھوڑ دی تھی لیکن کار خیر میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ الخدمت کا معاملہ ہو یا کسی سودے کا کوئی ذاتی حیثیت میں آجائے یا اپنی پریشانی کا اظہار کرے اس کو انکار نہیں کرتے تھے۔ نوجوانوں کو اہمیت دی جاتی تھی اسلامی جمعیت طلبہ والے آجائیں تو ان کے لیے وی آئی پی ہوتے تھے۔ محمود غفار 21جون 2019ء کو جمعرات جمعے کی درمیانی شب انتقال کرگئے ان کی عمر ایسی بھی نہیں تھی کہ موت کا سبب قرار دی جاتی۔ ان کو پھیپھڑے اور جگر میں سرطان کی بیماری تھی اور اس بیماری کو اللہ کی رحمت سے انہوں نے شکست دے دی تھی جس روز سرطان کے حوالے سے تشخیصی رپورٹ آئی تو ہم نے انہیں فون کیا کہ آپ کی رپورٹ کیا آئی۔ تو جواب سن کر مزا آگیا۔ ایک زور دار آواز کے ساتھ کہا۔ ہاں ہاں ہے۔ پھیپھڑے میں بھی ہے اور جگر میں بھی ہے۔ آواز زیادہ تیز اور گرمجوش ہونے کی بنا پر بے ساختہ ہم نے کہا کہ آپ تو ایسے بتا رہے ہیں کہ ہاں ہاں فلاں فلاں بینک میں اتنی رقم ہے لاٹری نکل آئی ہے۔ کہنے لگے۔ مظفر بھائی زندگی جتنی ہے ایک لمحہ بھی بڑھ نہیں سکتی۔ علاج کرانا سنت ہے وہ ہم کرائیں گے۔ آپ آفس آئیں یہاں بات ہوگی۔ان کے دفتر میں شام کو بیٹھے پوچھا کیا ہوا ہے کہنے لگے ڈاکٹروں نے ہر طرح جائزہ لیا ہے قابل علاج ہے ان شااللہ اگلے چند روز میں علاج شروع ہو جائے گا۔ اور پھر یوں ہوا کہ دفتر میں داخل ہوتے ہی آنے والی تیز آواز دھیمی ہونے لگی۔ ارے عرفان۔ (اکائونٹنٹ) ادھر آئو۔ ارے خالد (نائب قاصد) کیا ہو رہا ہے بھائی۔ پھر اپنے کمرے تک پہنچتے پہنچتے ایک ایک فرد کا نام لے کر کیا حال ہیں۔ بیٹھو بیٹھو عرفان سے مختلف رپورٹس لیتے اور پھر کمرے میں جا بیٹھتے۔ ان کا علاج شروع ہوا کیمو تھراپی نے ایسا اثر دکھایا ایک دن ملاقات ہوئی ہم نے پوچھا کیا حال ہیں کہنے لگے اللہ کی مہربانی ہے۔ دعا کریں ایمان کی سلامتی کی۔ پھر کیمو کے اثرات جسم پر نمایاں ہوئے لاغر ہو گئے۔ سر کے بال جھڑ گئے اور یہ باہمت شخص ایک دو دن کی چھٹی کرکے پھر دفتر آجاتا۔ ڈاکٹر منع کرتے رہتے۔ کہ کیوں آ جاتے ہو… گھر میں بیٹھو لیکن بے چین طبیعت کہاں بیٹھنے دیتی پھر آ جاتے بہر حال ایک ماہ کے بعد بہتری نظر آنے لگی ۔ رمضان المبارک میں ڈاکٹر واسع شاکر نے فون کیا مزاج پوچھے بڑے جوش سے بتایا کہ اب تو مسجد جا کر نماز یں ادا کر رہا ہوں… ہفتے پندرہ دن بعد ہم ان سے رپورٹ کے بارے میں پوچھتے اور ایک دن انہوں نے بتایا کہ الحمد للہ کینسر ختم ہو گیا ہے ساری رپورٹیں اچھی آئی ہیں بس ایک دو ٹیسٹ اور ہیں ۔ عید الفطر کے بعد ہم دفتر پہنچے محمود غفار گرمجوشی سے اٹھے ہم نے کہا کہ آئیے نماز عصر پڑھیں کہنے لگے ہاں بھئی … یہ ہاں بھئی… ان کا تکیہ کلام ہی تھا… اٹھے نماز پڑھی اور گھر کے لیے نکل گئے ۔ یہ ان سے آخری ملاقات تھی…پھر شہر میں ہیٹ ویو آ گئی ہم بھی مصروف ہو رہے ایک دن آئے لیکن اتفاق سے ذکر نہیں ہوا اچانک خالد نے کہا کہ آپ کی محمود بھائی سے بات ہوئی ہے… ہم نے کہا نہیں کیا ہوا… کہنے لگے ان کو شاید ڈینگی ہو گیا ہے ۔ ہم نے فوراً فون کیا… رات کو جواب آیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں دعا کریں…اگلے دن پتا چلا کہ آئی سی یو میں چلے گئے ہیں پھر پتا چلا کہ وینٹی لیٹر پر ہیں ڈرتے ڈرتے فون کیا ان کی بیٹی نے فون اٹھایا اور کہا کہ دعا کریں شام تک تو ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وارڈ میں شفٹ کر رہے ہیں اچانک انفیکشن بڑھ گیا ہے ۔ اور ایک دو روز کے بعد رات کوئی ساڑھے تین بجے اطلاع ملی کہ محمود غفار اس دنیا میں نہیں رہے ۔ لیکن محمود غفار اس دنیا میں ہیں پوری طرح موجود ہیں ۔ غفار کارپوریشن کے نام سے ادارہ بنایا وہاں موجود ہیں ۔ الخدمت کے درجنوں فلاحی منصوبوں میں خود بھی رقم دی اور اپنے احباب سے بھی رقم دلوائی محمود غفار تھر میں بھی موجود ہیں ، درجنوں دینی مدارس میں بھی موجود ہیں ۔ ہزاروں ضرورت مندوں کے دلوں میںموجود ہیں ۔ آخری دنوں میں الخدمتزتھر اسپتال ، الخدمت آغوش ، اور مختلف منصوبوں کے لیے کام کر نے اور ان کے لیے مالی تعاون پر بات کرتے تھے ۔ حافظ نعیم الرحمن ان کی عیادت کے لیے آئے تو بھی الخدمت آغوش اور اسپتالوں کے منصوبوں پر بات کرتے رہے اور ممکن ہے گھر کے لوگوں سے اس پر بات بھی کی ہو ۔ انہوں نے ارادہ کیا اور غفور الرحیم تو ارادوں پر اجر دینے والا ہے ۔ وہ یقیناً انہیں اپنی رحمت میں سمیٹ چکا ہو گا ۔
جب ہم رائل ٹی وی میں تھے تو میڈیا کے حوالے سے گفتگو رہتی تھی ایک دن بلایا اور کہا کہ اختر… اختر ایف حسن سعودی ائر لائن والے ان کے بچپن کے دوست تھے اور ڈائریکٹر ایکسپورٹ بھی تھے اختر نے کہا کیا ہوا کہنے لگے ابھی آپ دونوں بیٹھے ہیں ایک پروگرام ڈیزائن کریں جس میں یہ بتایا جائے کہ اسلام 21 ویں صدی میں بھی اسی طرح قابل عمل اور قابل نفاذ ہے جیسا پہلے دن تھا ۔ چند دنوں میں ہم نے ’’ اسلام اور21ویں صدی‘‘ کے عنوان سے پروگرام کی سیریز کا خاکہ تیار کر لیا ۔ 13قسطیں ، ہر قسط کا موضوع ، اس کا مہمان سب ہو گیا… اب رائل ٹی وی سے اسپانسر شپ کی بات کرنی تھی یہ ذمے داری بھی ہمیں دی… اور یہ پروگرام13لاکھ روپے میں اسپانسر ہو گیا ۔ اپنے احباب اور بھائیوں سے سے انہوں نے کیا لیا اور کیا نہیں لیکن ساری ادائیگی خود کی ۔ مہمانوں کی خاطر مدارات اور تحفے بھی اپنے ذمے لیے اور ارادہ تھا کہ مزید13 قسطیں چلوائیں لیکن رائل والوں کی رال ٹپکنے لگی معاملات خراب ہو گئے ۔ ہم نے ملازمت چھوڑ دی ۔ لیکن محمود غفار کے دماغ میں ہر وقت سودا سمایا رہتا میڈیا میں گھسو… ارے ساری جنگ یہیں لڑی جا رہی ہے ۔ آخری دنوں میں بھی کہتے کہ اب جیو یا ایکسپریس میں پروگرام اسپانسر کرائیں گے ۔ ملک میں بہتر معاشی سرگرمیوں اور فلاحی کاموں کے حوالے سے ڈیڑھ گھنٹے کی ویڈیو ریکاڈ کرائی اس میں راش کارڈ ، ہیلتھ کارڈ، ٹیکسیشن کا آسان نظام ، کرپشن کا خاتمہ ، ترقیاتی منصوبے ، بجلی ، گیس ، پیٹرول کی دریافت ، ہر چیز پر خود ریسرچ کرتے اور بتاتے غرض نیا پاکستان کا خاکہ دیا گیا اور یہ 2013ء میں دیا گیا تھا ۔ آج حکومت اسی قسم کے اعلانات تو کر رہی ہے عمل کچھ نہیں ۔ اللہ پر یقین کے حوالے سے کہاکرتے تھے کہ آپ نے اللہ کو کبھی دیکھا ہے… ہم نے کہا نہیں… کہنے لگے ہم روز دیکھتے ہیں … جو سودا میرے دوستوں کے توسط سے آیا ہو ہماری مٹھی میں ہو… یہ کہتے ہوئے مٹھی بھینچ کر دکھائی اور کہا کہ اس طرح لیکن پھر یہ سودا مٹھی سے ایسے نکل گیا جیسے ریت مٹھی میں تھی ۔ اور جس سودے کو ہم نا ممکن سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ پوری مارکیٹ میں گھوم کر ہمارے دروازے پر آ جاتا ہے ۔ بھائی اپنی تو روز اللہ سے ملاقات ہوتی ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ جب رزاق ٹیسٹی کا قتل ہوا تھا تو صرف ایک آدمی قتل نہیں ہوا تھا ۔ کراچی سے بوسنیا اور برما تک اور ہندوستان کے غریب آْدمی اور بمبئی کے بد حال لوگ بھی مر گئے تھے ۔ کیونکہ رزاق ٹیسٹی کا فیض عام تھا ۔ اسی طرح ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے اب بھی کراچی سے پشاور تک محمود غفار اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
چند دلچسپ باتیں!! ان کے بڑے بھائی بشیر عبدالغفار سے ایک روز بات ہورہی تھی۔ کہنے لگے آپ محمود کو کیسا سمجھتے ہیں۔ ہم نے کہا اچھے آدمی ہیں۔ بشیر بھائی کہنے لگے صرف اچھے نہیں!! ہم سارے بھائیوں میں سب سے اچھے۔ سارا خاندان ان کا گرویدہ ہے۔ بھانجے بھتیجے سب جان چھڑکتے ہیں۔ محمود غفار کے چھوٹے بھائی جاوید نبیل ٹینس کے پاکستان نمبر ون تھے اور وہ خود سیکنڈ نمبر پر تھے۔ سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیسن پر ریسرچ کے علاوہ پورے کراچی کے چھولے والوں پر بھی ریسرچ تھی۔ ایک ایک جگہ سے چھولے کھائے ہوئے ہوتے اور چھولے والا بھی پہچانتا تھا۔ وہ وہاں بھی زندہ ہیں۔