شیطان سے بڑا شیطان‘ چنگیز سے بڑا چنگیز

462

اردو کا محاورہ ہے۔ بُرا اچھا بدنام بُرا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اصل میں بد ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے بدنام نہیں ہوپاتا اسے کوئی بھی برا نہیں کہتا مگر خوامخواہ بھی بدنام ہوجاتا ہے اسے سب برا کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصل میں بد تو مغرب ہے مگر بدنام چنگیز خان ہے۔ چنگیز خان کی درندگی ہولناک تھی۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو قتل کیا مگر مغرب کے سامنے اس کی خون آشامی بچوں کا کھیل ہے۔ چنگیز خان سے ایک بار کسی نے پوچھا کیا آپ کو کبھی رحم بھی آیا۔ کہنے لگا ایک عورت کا بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا۔ عورت اپنے بچے کو بچا نہیں پارہی تھی، مجھے ماں کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ چناں چہ میں نے نیزے کو بچے کے پیٹ میں گھسا کر بچے کو باہر نکال لیا۔ مغرب کا رحم بھی ایسا ہی ہے۔ چنگیز خان کا رحم اس کے آگے کیا بیچتا ہے۔ چنگیز خان کے پاس تو ایک ہی نیزا تھا۔ مغرب کے پاس کئی نیزے ہیں۔ ان میں ایک نیزے کا نام اقوام متحدہ ہے، ایک نیزے کا نام آئی ایم ایف ہے، ایک نیزے کا نام عالمی بینک ہے۔ کوئی قوم معاشی طور پر ڈوب رہی ہوتی ہے تو مغرب آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نیزوں کو اس قوم کے پیٹ میں گھسا کر اسے ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
مغرب کا ذہنی سانچہ ایسا ہے کہ اس کے آگے شیطان کا ذہنی سانچہ بھی معمولی چیز نظر آتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ وائٹ ہائوس میں عمران خان سے ملاقات کے دوران امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں چاہوں تو امریکا دس دن میں افغان جنگ جیت سکتا ہے مگر اس کے لیے مجھے ایک کروڑ لوگ مارنے پڑیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانوں کا جرم کیا ہے؟ کیا یہ کہ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ یہ کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں؟ یہ کہ انہوں نے امریکا کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے؟ یہ کہ امریکا انہیں نہ ہتھیاروں سے ڈرا سکا نہ ڈالروں سے خرید سکا؟۔ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ افغانوں نے امریکا کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ امریکا نے افغانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ چناں چہ اگر افغان کہتے کہ وہ امریکا کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے تو بات سمجھ میں آتی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات کا کوئی مفہوم ہی نہیں کہ وہ افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ شرمناک ترین بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ملک اور ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات اس طرح کہی ہے جیسے وہ پوری افغان قوم کو مٹانے والے نہ ہوں بلکہ اسے آئس کریم کھلانے والے ہوں۔ اس سے بھی شرمناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے شیطانی خیالات کی دنیا میں کسی نے مذمت ہی نہیں کی۔ بلکہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت تو امریکا سے، آہ امریکا، واہ امریکا، شاہ امریکا کرتی ہوئی لوٹی ہے۔ اتفاق سے ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات پہلی مرتبہ نہیں کی ہے۔ انہوں نے چند ماہ پہلے شمالی کوریا کے بارے میں بھی کہا تھا کہ امریکا شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔ شمالی کوریا کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکا کے صدر نے چند لمحوں میں ڈھائی کروڑ افراد کو ایٹم بموں یا ہائیڈروجن بموں کے ذریعے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ اکبر نے کہا تھا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہاں سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کا جرم کیا ہے؟ شمالی کوریا کا جرم یہ ہے کہ اس کے پاس ایٹم بم بھی ہے اور دور مار میزائل بھی۔ ان میزائلوں سے امریکا کے ایک دو فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ امریکا شمالی کوریا سے کہہ رہا ہے اپنی ایٹمی صلاحیت سے دستبردار ہو ہوجائو۔ اتفاق سے شمالی کوریا نے اب تک امریکی مطالبے کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے۔
قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات صرف افغانستان اور شمالی کوریا تک محدود نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے امریکا کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو پتھروں کے دور میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت امریکا پاکستان کو یہ دھمکی دے رہا تھا پاکستان امریکا کے خلاف کیا کررہا تھا؟ پاکستان نائن الیون کا ذمے دار نہیں تھا۔ پاکستان کے حکمران نائن الیون سے پہلے 40 سال تک امریکا کے غلام رہے تھے۔ پاکستان کا طالبان پر اثر تھا مگر طالبان پاکستان کی جیب میں پڑی ہوئی طاقت نہیں تھے۔ چناں چہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی دھمکی کا کوئی ’’شیطانی جواز‘‘ بھی نہیں تھا۔
مغرب پاکستان، شمالی کوریا اور افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دے کر رہ گیا۔ مگر ریڈ انڈینز کو تو اس نے صفحہ ہستی سے مٹا ہی دیا۔ امریکا سفید فاموں کا ملک نہیں تھا۔ امریکا ریڈ انڈینز اور دوسرے قبائل کا ملک تھا۔ مگر مغرب کے سفید فاموں نے پہلے طاقت کے زور پر ’’Americas‘‘ پر قبضہ کیا اور پھر مغرب کے معروف دانش ور مائیکل ماف کے بقول 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو ہلاک کردیا۔ لاعلم لوگ کولمبس کو سیاح سمجھتے ہیں مگر وہ سفید فام مغرب کا ایک آلہ کار اور اس کا ایک گماشتہ تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ کولمبس جب امریکا کے ایک ساحل پر پہنچا تو ریڈ انڈینز اپنی فطری معصومیت کی وجہ سے کولمبس اور اس کے ساتھیوں پر فدا ہوگئے اور ان پر تحائف کی بارش کردی۔ ہووڑزن نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’’A Peoples History of United State of America‘‘ میں کولمبس کے روزنامچے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ریڈ انڈینز کولمبس کا شاندار استقبال کررہے تھے تو اس وقت کولمبس سوچ رہا تھا کہ ریڈ انڈینز سفید فاموں کے لیے ’’بہت اچھے غلام‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ہے مغربی ذہن کی ناپاکی۔ چوں کہ ریڈ انڈینز نے مغرب کا غلام بننے سے انکار کردیا اور اس کی مزاحمت کی، اس لیے مغرب نے ’’Americas‘‘ میں آباد تمام مقامی باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ سفید فاموں نے یہی شیطانی اور چنگیزی کھیل آسٹریلیا میں کھیلا۔ آسٹریلیا پورا براعظم ہے اور وہ کبھی ایب اوریجنل لوگوں کا مسکن تھا۔ مگر سفید فام مغربیوں نے پورے آسٹریلیا پر قبضہ کرلیا اور 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو مار ڈالا۔ اتفاق سے تمام ایب اوریجنلز کو قتل نہیں کیا جاسکا۔ چناں چہ اب دو سو سال بعد آسٹریلیا پر قابض سفید فاموں نے آسٹریلیا کا ایک صوبہ ’’تسمانیہ‘‘ ایب اوریجنلز کے حوالے کیا ہے اور کہا ہے کہ تم اس صوبے میں رہو سہو اور اپنی زبان اور کلچر کو فروغ دو۔
مغرب کبھی اس بات کی تردید نہیں کرسکتا کہ ہٹلر مغربی ذہنیت کی ایک علامت تھا اور اس نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اگر کوئی شخصیت ہٹلر کا سایہ بھی ہوتی تو مغرب اسے پوری اسلامی تہذیب کی علامت بنادیتا اور کہتا کہ جو تہذیب ہٹلر کو پسند کرسکتی ہے اس کی انسان دشمنی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر مغرب کی چالاکی دیکھیے کہ وہ ہٹلر کو جرمن ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ حالاں کہ انسانوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانا جرمنی کا نہیں پورے مغرب کا ’’شوق‘‘ ہے۔ اس شوق میں پورا امریکا بھی شامل ہے اور پورا یورپ بھی۔ کتنی عجیب بات ہے یہودیوں کا قتل عام ایک یورپی نے کیا مگر یہودی قتل عام کا خمیازہ فلسطینی مسلمان بھگت رہے ہیں۔
مغربی ذہن کی شیطنت اور چنگیزیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ مغربی اقوام نے صرف انسانوں اور اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹایا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جواز جوئی بھی کی ہے۔ امریکا اور یورپ نے صدام حسین کے عراق پر اقتصادی پابندیاں عاید کیں۔ ان پابندیوں سے 10 لاکھ عراقی غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ 10 لاکھ معصوم انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر جب امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن آلبرئیٹ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے 10 لاکھ لوگوں کی ہلاکت کو ’’درست‘‘ قرار دیا، انہوں نے فرمایا۔
’’It is acceplable and worth it‘‘ انسانی تاریخ میں ایسا سفاکانہ فقرہ شاید ہی کبھی بولا گیا ہو۔ مگر یہ تو ایک مغربی سیاست دان کا فقرہ ہے۔ مغرب کے دانش ور بھی کچھ کم نہیں۔ کپلنگ مغرب کا نوبل انعام یافتہ ادیب ہے۔ اس نے اپنی ایک نظم کے مصرعے میں مشرق کو آدھا شیطان اور آدھا بچہ قرار دیا ہے۔ آدھے شیطان کا مطلب تو بالکل واضح ہے، آدھے بچے کا مطلب یہ ہے کہ پورے مشرق کا کامل ’’ارتقا‘‘ نہیں ہوسکا۔ وہ بچے کا بچہ رہ گیا وہ کبھی ’’بڑا‘‘ یا ’’Adult‘‘ نہ بن سکا۔ یہ بات وہ جدید مغرب کہہ رہا ہے جو روحانی مابعدالطبیعاتی اور اخلاقی اعتبار سے ابھی تک پیدا ہی نہ ہوسکا ہے۔
خون آشامی چوں کہ مغرب کی سرشت میں ہے اس لیے مغرب نے خود اپنے ساتھ بھی شیطنت اور چنگیزیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ایرک فرام مغرب کے بڑے ماہرین نفسیات میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’’The Anatomy of Human Destructiveness‘‘ میں اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ یورپی طاقتوں نے گزشتہ پانچ سو برسوں میں 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں اور یہ تمام جنگیں اپنی اصل میں ’’یورپی‘‘ تھیں۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ یورپ نے 20 ویں صدی میں ایک نہیں دو عالمی جنگیں ’’ایجاد‘‘ کیں۔ ان جنگوں میں ’’صرف‘‘ 10 کروڑ افراد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ امریکا نے دو ایٹم بموں کے ذریعے ہیروشیما اور ناگاساکی کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسانوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانا مغرب کی ’’روایت‘‘ بھی ہے اور ’’شوق‘‘ بھی۔