ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا

267

اپوزیشن اتحاد اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے امیدوار میر حاصل خان بزنجو اب کچھ بھی کہیں‘ کسی پر بھی الزام دیں‘ معاملہ کھل کر سامنے آچکا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے کھیل میں اپوزیشن مکمل شکست کھا چکی ہے اپوزیشن کو چاہیے کہ اب الزام دینے کے بجائے اپنی صفوں میں ان چودہ ہاتھیوں کو تلاش کرے جنہوں نے اپنی ہی صفیں روند ڈالی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کی شکست ایک غیر معمولی واقعہ ہے اسے تو اکثریت کا یقین بھی تھا اور اس پر فخر بھی کرتی رہی ہے اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو اس میں اپوزیشن کے لیے سبق بھی ہے کہ اب یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ اور وہ بندہ تلاش کرنا چاہیے جس نے اس کھیل میں اپوزیشن کو دھکا دیا ہے اس کھیل میں سب سے بڑا دھچکا یہ لگا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی نے اپوزیشن اتحاد اور مسلم لیگ (ن) کے داخلی اختلافات کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کی رہنماء مریم نواز شریف کا بیانیہ بھی شکست کھا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے متعدد سینئر رہنماء بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے نواز شریف آج کل جیل میں ہیں اپوزیشن کی شکست کی دوسری بڑی وجہ خود میر حاصل خان بزنجو بھی ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے وہ مناسب امیدوار نہیں سمجھے گئے میر حاصل خان بزنجو کی کمزور اور مبہم شخصیت نے بھی سینیٹ میں اپوزیشن کو شکست دلوائی ان کے ناقابل قبول سیاسی مزاج کے باعث عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی ہے وہ کسی کو الزام دینے کے بجائے اپنا جائزہ لیں تو بہتر ہوگا۔ آصف علی زرداری کا بیان بھی ذہن میں رکھا جائے کہ ’’پیپلزپارٹی چیئرمین سینیٹ کو لائی نہ انہیں نکال رہی ہے‘‘۔ اس شکست میں دوسری اہم وجہ اپوزیشن کے اتحاد میں عدم یکسوئی ہے جس کی وجہ مریم نواز شریف کا سیاسی بیانیہ ہے جسے شکست ہوئی ہے۔
اپوزیشن میں ایک نیا محاذ یہ بھی کھل چکا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے اپنے استعفے بلاول زرداری کے حوالے کرکے مسلم لیگ (ن) کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اپوزیشن اتحاد کو ایوان میں اس تحریک کی حمایت میں 64 ارکان کی سپورٹ تھی لیکن یہاں صورت حال تبدیل اس وقت ہوئی جب قائد ایوان شبلی فراز نے کہا کہ ہم تقریریں نہیں کریں گے اس تحریک پر خفیہ رائے شماری کرائی جائے قائد ایوان کی اس بات کے جواب میں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق نے بھی تائید کی کہ خفیہ رائے شماری کرائی جائے یوں تحریک پر اظہار خیال کا موقع دیے بغیر رائے شماری کرائی تو نتیجہ بھی سامنے آگیا یہ صورت حال بتاتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں شکست کی وجوہات کبھی بھی منظر عام پر نہیں لائیں گی۔ تحریک انصاف اب اس صورت حال کو اپوزیشن اتحاد میں دراڑ ڈالنے کے لیے استعمال کرے گی۔ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے مابین بھی فاصلے پیدا ہوسکتے ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کے وہ سینیٹر جن کے سیاسی مفادات مرکز اور صوبے کی حکومت سے وابستہ ہیں انہوں نے بھی صادق سنجرانی کو ووٹ دیا اور یہ فیصلہ انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق سیاسی استحکام کے لیے ووٹ دیا اپوزیشن کے دو ارکان سینیٹر کلثوم پروین اور دلاور خان وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے عشائیے میں بھی شریک ہوچکے تھے ان کے مفادات وزیر اعلیٰ بلوچستان سے جڑے ہوئے تھے، انہیں ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی عدم اعتماد کی تحریک پر خفیہ رائے شماری تک 64 ارکان اپوزیشن کے کیمپ میں تھے لیکن خفیہ بیلٹ تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد 14 کم ہوگئی لیکن شکست کی وجوہات کا پتا چلانے کے لیے جو اجلاس بلایا گیا اس اجلاس میں سینیٹرز کی تعداد پھر سے 60 ہوگئی یعنی جن سینیٹرز نے صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ ڈالا وہ بھی اپوزیشن کے اجلاس میں بطور اپوزیشن سینیٹر شریک ہوئے پارلیمنٹ کی راہداریوں میں ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا تجزیہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ میر حاصل خان بزنجو کے خاندان کا سیاسی پس منظر بھی عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کی وجہ بنا ہے کہ صادق سنجرانی نے بلوچستان سے تعلق ہوتے ہوئے صوبے کی دیگر انقلابی اور بلوچ سیاسی مزاج رکھنے والی قوتوں کے مقابلے میں بہتر کردار کا مظاہرہ کیا اور سینیٹ جیسے اہم ایوان کو توازن کے ساتھ چلایا ان کی کامیابی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر جام کمال کی کوششیں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی تو اپوزیشن کا اگلا ہدف قومی اسمبلی اور بلوچستان حکومت تھا جس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں ایک بار پھر سے کامیاب ہوجاتیں اور ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی بگڑجاتا ملک کی سیاسی صورت حال کو مستحکم رکھنے کے لیے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ صوبوں اور مرکز میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔