’’امن واستحکام کے لیے کام: معاشی خوش حالی قائم کرنا‘‘ کے عنوان سے وائٹ ہائوس سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانے اور مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے امریکا اور پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات بہتر ہونے سے تجارتی تعلقات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا اور پاکستان مضبوط معاشی شراکت دار ہیں جن سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور امریکا نے گزشتہ سال چھ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر مالیت کی اشیاء کی تجارت کی جو باہمی تجارت کا نیا ریکارڈ ہے۔ فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکی حکام نے پاکستان پر بھارت اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ تجارت کی سہولت فراہم کرنے پر بھی زور دیا ہے اور کہا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا ئی خطے کے درمیان تجارت میں اضافے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے موقع پر امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مزید دس سے بیس گنا اضافہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بہت محنتی اور شاندار لوگوں ہیں اور پاکستان ایک بڑا بلکہ حقیقتاً بہت بڑا ملک ہے۔ ان کی مصنوعات بہت میعاری ہوتی ہیں اور اس کا ذاتی تجربہ مجھے اس وقت سے ہے جب میں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کررہا تھا۔
پاکستان اور امریکا تعلقات کا ہمہ جہتی بگاڑ اب ایک یوٹرن لیتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ گزشتہ بیس برس ان تعلقات کی دنیا میں تاریکی، شک، دوہری پالیسیاں، خوف اور مخاصمت ہے۔ دونوں ملک جوں جوں دور ہوتے چلے گئے دونوں کی مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔ امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جو پراکسی جنگ افغانستان میں لڑی تھی اس کی فتح کا پورا نہ سہی ایک چوتھائی سہرا پاکستان کے سر بھی سجتا ہے۔ پاکستان نے اپنی سرزمین اور دماغوں کو وقف کرکے امریکا کو زمینی حقائق سے آشنا اور قریب تر جنگی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر مجبور کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کے قدم زمین پر ٹک نہ سکے اور یہاں تک کہ ایک روز اسے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اس اعلان کے ساتھ کہ ’’ہم دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کریں گے‘‘ دریائے آمو عبور کرنا پڑا۔ امریکا خود افغانستان میں آیا تو پاکستان کے ساتھ اس کا معاملہ بن نہ سکا کیوںکہ اب ان تعلقات میں ایک تیسرا کردار بھارت بھی سینگ پھنسا چکا تھا اور یہ بات پاک امریکا تعلقات کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹتی رہی۔ اس طرح امریکا پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں کلی فاتح نہ بن سکا بلکہ فتح کی تلاش اور تعاقب میں ڈیڑھ عشرہ ضائع ہوگیا۔ اس کے بعد امریکا نے پاکستان کو چھوڑ دیا تو پاکستان کی معیشت کے لیے برے دنوں کا آغاز ہوگیا۔
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ قربتوں کا عادی امریکا کا ہی تھا اور اس عادت نے امریکا پر
اس کا انحصار بڑھا دیا تھا۔ امریکا کا ساتھ چھوٹ جانے کے بعد پاکستان کی معیشت زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ امریکا نے پاکستان میں ایسے حکمرانوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی بالواسطہ طور پر جاری رکھی جنہوں نے ملک سے سرمائے کو مختلف طریقوں سے بیرونی دنیا میں منتقل کرکے دولت کے انبار کھڑے کیے۔ برین ڈرین کے ساتھ سرمائے کی منتقلی دونوں کی امریکا نے جم کر حوصلہ افزائی کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آکسیجن ٹینٹ پر آگئی اور اس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں زبان زد خاص وعام ہونے لگیں۔ پاکستان مکمل طور پر عالمی معاشی اداروں کے رحم وکرم پر رہ گیا اور امریکا نے ان اداروں کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ آج ملکی معیشت سو فی صد ہی مصنوعی تنفس کی محتاج اور مرہون منت ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ سے جہاں امریکا افغانستان میں فتح سے دور ہوگیا وہیں امریکا کی عنایتوں اور مہربانیوں سے پاکستان کی معیشت ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی۔ جس پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
اب امریکا اور پاکستان دونوں کو اس نقصان کا احساس ہوگیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے مگر اس تعلق اور مہربانی کی قیمت کیا ہے؟ اس نئی کہانی میں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں کا تعلق نظریہ ٔ ضرورت سے عبارت۔ اس تعلق میں گہرائی، گیرائی اور خلوص کا عنصر بہت کم ہی ملتا ہے۔ کہیں اس کی قیمت سی پیک اور پاک چین تعلقات تو نہیں؟ موجودہ حکومت سی پیک کے حوالے سے زیادہ پرجوش نہیں رہی۔ حکومت بنتے ہی مشیر تجارت نے ان منصوبوں کو موخر کرنے کا عندیہ دے کر امریکا کے لیے ایک شاخ ِ زیتون اُچھال دی تھی۔ سی پیک کو اب تک پاکستان اور چین دونوں کے لیے ایک مہنگا شوق بنا نے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ابھی تک کے مراحل نے پاکستانی معیشت کو نظر آنے والا سہارا نہیں دیا مگر اس کا مطلب ہر گز نہیں اس منصوبے کے دور رس اثرات نہیں۔ یہ نئی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا ایک ذریعہ ہے سبک رفتاری کے لیے بھی ایک شخص کا صحت مند اور معاشی طور پر آسودہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے چین کو نظر انداز کرنے کی قیمت پر امریکا کی دوستی اور تعلق خسارے کا سودا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا کے ساتھ لڑتا بھڑتا اور بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں کھڑا پاکستان چین کا آئیڈیل نہیں۔ اس مشکل میں گھرا پاکستان چین کی مدد کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ پاکستان کو معاشی حالات سدھارنے کے لیے امریکا سے تعاون ضرور طلب کرنا چاہیے مگر اس کا اثر پاک چین تعلقات اور سی پیک پر نہیں پڑنا چاہیے کیوںکہ دونوں آزمودہ دوست ہیں مگر دونوں امتحان کے لمحوں میں مختلف انداز اور تجربات سے آزمائے گئے ہیں۔ اس ماضی کو مدنظر رکھ کر امریکا کے ساتھ تعلقات میں آگے بڑھنے میں ہی پاکستان کا بھلا ہے۔