کئی دن سے شور مچ رہا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ لیکن کہاں ہوئی ہے۔ شور مچانے والوں کو گدھوں اور گھوڑوں میں تمیز نہیں جن لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ نہیں معلوم پانچ پانچ سینیٹرز یکساں غلطی کریں تو اس کا مطلب ہے کہ چابک مارنے والے نے جہاں اور جیسے موڑنا چاہ رہے تھے اس طرح مڑ گئے ایسے کو گدھا ہی کہا جاسکتا ہے۔ سرکاری کیمپ میں سینیٹ چیئرمین کی کامیابی کو جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ اپوزیشن اسے جادو، ضمیر فروشی اور دھاندلی قرار دے رہی ہے۔ غرض سنجرانی جیسے لائے گئے تھے اسی طرح بچائے گئے۔ بہرحال چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈراما اپنے انجام کو پہنچا۔ اگر سنجرانی ہار بھی جاتے تو کیا فرق پڑتا۔ جیسے نواز گئے، زرداری آئے، نواز آئے پھر گئے، اب عمران آگئے۔ فرق تو کوئی نہیں پڑا۔ حبیب جالب ہوتے تو ہم پوچھتے کہ وزیروں کے دن کیسے بدلے ہیں اب تو وزیر بھی نہیں بدلتے۔ مشرف کابینہ کے وزیر، زرداری کابینہ کے وزیر، نواز کابینہ کے وزیر، جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کے ارکان یہ سب عمران خان کی کابینہ کے وزیر ہیں۔ دن تو عوام ہی کے بدلے ہیں۔ پہلے سو روپے کا ڈالر لیتے تھے، 80 کا پٹرول لیتے تھے اب 160 کا ڈالر لیتے ہیں اور 117 کا پٹرول لیتے ہیں۔ عوام کے دن تو اتنے بدل گئے ہیں کہ روٹی نہ ملے تو کیک کھارہے ہیں۔ بس ڈرما ہی ہوتا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بارے میں سارا مزا حاصل بزنجو نے لاحاصل جملہ کہہ کر خراب کردیا۔ ارے جو بات سارا ملک جانتا ہے وہ بھری محفل میں کہنے سے کیا فرق پڑتا لیکن اب ان کے پیچھے کون کون پڑتا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کیسے جیت گئے اس پر وہ خود بھی حیران ہوں گے۔ کیوں کہ جب 64 ارکان ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے کھڑے ہوگئے تو یہ ان کے خلاف فیصلہ تھا لیکن اچانک خفیہ بیلٹ کا اعلان ہوا اور اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔ جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد نے درست کہا کہ اکثریت اور عسکریت کا مقاملہ تھا۔ اور ایسا ہی ہوا ایوان میں تو اپوزیشن نے اکثریت ثابت کی لیکن نتائج میں عسکریت ثابت ہوئی۔
ایک ویڈیو بھی گردش کررہی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ 54 ووٹ ملے ہیں۔ خیر چھوڑیں اب تو یہ بات پرانی ہوگئی بالکل اسی طرح جس طرح انگلش ٹیم ورلڈکپ جیتی ہے نیوزی لینڈ والے کئی دن تک صدمے سے نہیں نکل سکے۔ انگلینڈ کے کھلاڑیوں کو ایک ہفتے بعد سمجھ میں آیا کہ ہم جیت گئے ہیں نتائج آچکے۔ لیکن جانتے تو سب ہی ہیں۔ حالاں کہ انگلینڈ کی فتح میں عسکریت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ آج کل مقابلہ ہورہا ہے کہ کون زیادہ پریشان ہے، لہٰذا مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف اور مریم نواز کے بیانیے میں اختلاف کا ذکر ہورہا ہے۔ اب ایک اور بیانیہ سامنے آیا ہے وہ ہے بلاول زرداری کا۔ انہوں نے عجیب بیانیہ پیش کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ میں حساس ادارے کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے ایک پیغام بھی دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اُمید ہے جنرل حفیظ اپنے ادارے کو سیاست سے دور رکھیں گے۔ یعنی آپ نے کلین چٹ دے دی اب ان سے رعایتیں درکار ہیں۔ یہ کچھ دنوں میں سامنے آجائے گا کہ کس کو ڈھیل مل رہی ہے کون ڈیل کررہا ہے اور کون مزید شکنجے میں آرہا ہے۔ تلواریں تو سب کے سروں پر لٹکی ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کے سر پر بھی کئی تلواریں ہیں۔ لٹکانے والے جب جس تلوار کی ڈور ڈھیلی کردیں۔ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ بلاول نے اپنے ابو کی ڈور ڈھیلی کرانے کے لیے کوشش کی ہے لیکن عجیب بات کرگئے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اپوزیشن کے متفقہ امیدوار حاصل بزنجو تو آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگارہے تھے اور بلاول نے کہہ دیا کہ ہارس ٹریڈنگ میں ایجنسیوں کے کردار کی اطلاع نہیں ملی۔ تو پھر اپوزیشن کے متفقہ امیدوار نے کس کی اجازت سے یہ بات کہی تھی۔ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار درست کہہ رہا ہے یا اپوزیشن کی ایک پارٹی کا رہنما۔ کوئی ایک درست ہوگا۔ گویا ساجھے کی ہنڈیا میں پھوٹ بھی نظر آنے لگی ہے۔ اس سارے عمل پر سراج الحق کا تبصرہ بھی محل نظر رہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت سینیٹ الیکشن جیت کر بھی عوام کی نظروں سے گر گئی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس الیکشن یہ ثابت کیا کہ گملوں کی پنیری سے اب تک ایک ہی جیسی پیداوار ہورہی ہے۔ سیاست دان نہیں آرہے۔ یہ موم کی ناک اور چکنی مٹی کے کھلونے ہیں جب چاہا (ن) بنادیا اور جب چاہا (ق)، کبھی دونوں کو ملا کر پھر (ن) بنادیا اور اب نون اور قاف، پی پی پی سب کو ملا کر پی ٹی آئی بنادیا۔ متحدہ اپوزیشن (اگر متحدہ ہے تو) اپنے امیدوار سے اور بلاول سے پوچھے کہ کون درست کہہ رہا ہے۔ حاصل بزنجو نے تو نام لے لیا۔ بلاول بتائیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کا تو اعتراف کررہے ہیں لیکن یہ نہیں بتارہے کہ کس نے کی۔ گویا پھر وہی خلائی مخلوق۔ اس میں عافیت ہے نام لینے میں زیادہ گڑبڑ کا خدشہ ہوتا ہے۔