درد کی اس وادی سے جو خبر بھی آتی ہے اہل کشمیر کے لہو میں تیرتی آتی ہے۔ گرتی لاشوں، اٹھتے نوحوں، کہرام میں لپٹی صدائوں، کرفیو زدہ بے بس زندگی، نہتے جسموں سے اٹھتے بارود کے دھویں، زہریلی ہوائوں، جلتے مرغزاروں، دھماکوں سے لرزاں گھروں، جنازوں کو کاندھا دیتے ہجوم، پیلٹ گنوں کے چھروں سے زخمی صورتوں، خون سے تر چہروں اور بھارتی افواج کے بھیانک تشدد اور خون کی ہولی کی تصویروں کا نام مقبوضہ کشمیر ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان کے سول حکمران، فوجی قیادت، خود غرض سیاست دان، مصلحت بین علما، خوشامدی دانشور اور دیگر نمائندہ افراد محض رسمی بیان بازی اور آڑی ترچھی بکواس کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ کہیں درد کی رمق نہ کہیں درماں کی خواہش اور کوشش۔
تشویش تو اسی وقت دوڑ گئی تھی جب مقتل کشمیر میں کھڑے 90سالہ مجاہد کی درد میں ڈوبی یہ پکار سنائی دی تھی ’’اگر ہم سب اہل کشمیر مرگئے اور آپ چپ رہے تو آپ اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ بھارت کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کرنے جارہا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے‘‘۔ سید علی گیلانی کی یہ پکار اس وقت حقیقت بن گئی جب بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور A35 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کردیا۔ اس خبر سے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں ہلچل مچ گئی۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟ اکتوبر 1947میں مہا راجا ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کرتے ہوئے طے کیا تھا الحاق کے باوجود ریاست جموں وکشمیر ایک آزاد ریاست رہے گی۔ جس میں ریاستی امور، قانون سازی، شہریت اور دیگر امور ریاست کے پاس ہی رہیں گے نہ کہ بھارت کے پاس۔ اسی معاہدے کی وجہ سے بھارت کو اپنے دستور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے لیے آرٹیکل 370 اور A35 شامل کرنا پڑا۔ اس معاہدے کی آٹھویں شق یہ تھی کہ الحاق کے اس معاہدے کے بعد بھارتی حکومت ریاست جموں وکشمیر کی خود مختاری اور حا کمیت اعلیٰ پر قبضہ نہیں کرے گی اور ہر حال میں ریاستی انتظام ریاست کے پاس ہی رہے گا۔ اس معاہدے پر کشمیری راجا اور بھارت نے دستخط کیے تھے۔ الحاق کے اس معاہدے ہی میں لکھا ہے کہ معاہدے میں کسی تبدیلی کے لیے بھی اضافی معاہدہ درکار ہوگا جو بھارت اور ریاست جموں وکشمیر مشترکہ طور پر کریںگی۔ اس خصوصی حیثیت کے مطابق کشمیر کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری تصور کیا گیا کہ بھارت کا کوئی بھی شہری ریاست کشمیر میں نہ جائداد خریدنے کا مجاز ہوگا اور نہ ہی مستقل سکونت اختیار کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو بھارتی دستور کے تابع کرتے ہوئے یہ واضح انداز میں لکھا گیا تھا کہ اس ریاست کی نیم خود مختار حیثیت کو کبھی تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ الحاق کے اس معاہدے کی وجہ سے بھارتی دستور میں آرٹیکلز شامل کیے گئے۔
اب بھارتی حکومت کی جانب سے الحاق کے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ الحاق کا معاہدہ بھارت نے توڑ دیا ہے۔ معاہدے کو توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اب کشمیر پر بھارتی قبضہ یکسر غیر قانونی ہوگیا ہے۔ کشمیر میں موجود تمام بھارتی فوج قابض فوج میں تبدیل ہوگئی ہے۔ بھارت کی اب کشمیر میں موجودگی توسیع پسندانہ عزائم سے عبارت ہوگئی ہے۔ اس موقع پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند اور حریت رہنما تو ایک طرف بھارت سے الحاق کے حامی رہنما اور سیاست دان بھی نئی دہلی حکومت کے اس یک طرفہ فیصلے کے خلاف ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے دو سابقہ وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی اسی تناظر میں نظر بند کردیے گئے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے ابتدا میں وزارت خارجہ کی طرف سے رسمی سا رد عمل جاری کیا گیا۔ اگلے دن منگل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس کئی گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہوا اس کے باوجود عمران خان اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ وہ آئے توکل وقت اپنی صفائی پیش کرتے رہے یا پھر سفیروں سے رابطے، اوآئی سی اجلاس اور عالمی برادری سے نوٹس لینے کا عندیہ دیتے رہے۔ بے روح الفاظ، کھو کھلے اور عمل سے تہی۔ جب اپوزیشن نے ان پر تنقید کی تو وہ تاب نہ لاسکے اور اسمبلی سے باہر چلے گئے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اپوزیشن کا موقف سننا بھی گوارا نہیں کیا۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے کیا مشترکہ لائحہ عمل سامنے لایا جا سکتا ہے۔ کیا ضرورت تھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ڈرامے کی۔
وزیراعظم عمران خان نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مودی الیکشن میں کامیاب ہوگئے تو مسئلہ کشمیر حل کردیں گے۔ یہ خیال درست ثابت ہوا۔ مودی نے کشمیر کا معاملہ جزوی طور پر نہیں مکمل طور پرحل کردیا۔ مودی کے اس حالیہ اقدام کے بعد بھارت کی جانب سے اس موقف کی تکرار کی جائے گی کہ کنٹرول لائن کی حیثیت اب بارڈر کی سی ہے، ہم نے اپنے صوبوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جموں و کشمیر میں انتخابات کا انعقاد کرایا جائے گا۔ اسمبلیاں تشکیل دی جائیں گی۔ اب جموں وکشمیر دو طرفہ نہیں بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ ہو، سوشل میڈیا ہو یا مقبوضہ اور آزاد کشمیر، یہ خیال شدت سے پایا جاتا ہے کہ حالیہ دورہ امریکا میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کشمیر کا سودا کرکے آئی ہے۔ یہ تاثر اتنا گہرا اور وسیع ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تین سال پہلے عمران خان نے ایک کشمیری صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا بہترین حل اس کی تین حصوں میں تقسیم ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کو دے دیا جائے۔ لداخ بھارت کے سپرد کردیا جائے۔ وادی اور آزاد کشمیر کو ملا کر تیسرا حصہ خود مختار کردیا جائے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اس موقف کی تردید کی گئی تھی لیکن اس نشست میں موجود ہر شخص بضد تھا کہ عمران خان نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان بھارت کے معاملے میں جس فراخدلی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں وہ حیران کن ہے۔ مودی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی توقع ایک ایسی امید تھی جس کی کسی ہوش مند سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی سوائے عمران خان کے۔ وہ مودی جو پوری الیکشن مہم میں پاکستان سے شدید نفرت کا اظہار کر تا رہا، جس کی الیکشن مہم کا بنیادی نکتہ ہی پا کستان کو مٹانا تھا، اس کی کامیابی پر ایک زبردست ٹویٹ کے ذریعے مبارک باد دینا۔ بھارت آسٹریلیا کرکٹ سیریز کی کامیابی پر گرم جوشی کا اظہار، کرتار پور راہداری کھولنے کے معاملے میں بھارت کی سرد مہری کے باوجود خیر سگالی کے انتہائی جذبات سے مودی کو لبھانے کے سوا عمران خان کیا کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال کس زرخیز ذہن کی پیداوار تھا کہ مودی اتنے کچے ہیں کہ ایسی باتوں سے مسلم اور پاکستان دشمنی سے پیچھے ہٹ جاتے؟ جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تب سے ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد میں جس طرح اضافہ کیا ہے اور عمران خان نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی ہے، وہ ان مفروضوں کو تقویت دیتی ہے کہ عمران خان اور پا کستان کی فوجی قیادت کشمیر کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔
بیان جاری کیا گیا کہ افواج پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ کھڑی ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے مجاہدین کشمیر سات لاکھ بھارتی افواج کا بدترین ظلم اور تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ ہماری ہزاروں مائوں بہنوں بیٹیوں نے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی، لاکھوں نوجوان شہید ہوگئے، ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں دم توڑ رہے ہیں، پیلٹ گنوں کے چھروں سے بینائی کھو رہے ہیں لیکن ان کی مدد کے لیے بھارتی فوج پر ایک گو لی چلائے بغیر ہماری فوجی قیادت مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہے!! جس ملک کا وزیراعظم یہ کہے کہ اگر ہم بھارت کے خلاف جنگ ہار گئے تو پھر ہم کیا کریں گے؟ اندازہ کیجیے وہ حکومت بھارت کا کیا بگاڑ سکتی ہے اور مظلوم کشمیریوں کی کتنی مدد کرسکتی ہے؟۔