ٹرمپ کو بھارت کا جواب

193

مقبوضہ کشمیر اپنی فطری رعنائیوں اور حسن کے سبب ایشیا کا حسین ترین خطہ ہے جہاں کی جنت نظیر وادی میں سرسبز پہاڑ، پھولوں سے ڈھکی وادیاں، چاندی سے شفاف پانی کے چشمے اور خوشبو سے لبریز ہوائیں ہیں جہاں آزادی سے محبت کرنے والے ایمان سے مالا مال مسلمان بستے ہیں۔ اس جنت نظیر وادی کو بھارت نے جہنم بنانے کا ارادہ ہی نہیں عمل بھی کیا ہوا ہے۔ 1941ء میں برصغیر میں مردم شماری ہوئی اور اس کے اور اس مردم شماری کی بنیاد پر تقسیم ہند کا فارمولا عمل میں لایا گیا اس وقت کشمیر کی آبادی کا 93 فی صد حصہ مسلم آبادی کا تھا۔ تبت سے ملحق کچھ علاقوں میں تھوڑی بہت بدھسٹ آبادی تھی۔ حقیقت میں مسئلہ کشمیر پیدا ہی نہیں ہوتا اگر برطانوی سامراج اپنے ہی اصول و قواعد کے تحت کشمیر کا معاملہ طے کرتی۔ لیکن اس نے ڈنڈی ماری اور کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کا لہو بہانے کے لیے اپنے ہی تقسیم کے فارمولے کو نظر انداز کردیا۔ وائسرائے کی غیر جانبداری بلکہ سازش اور ناانصافی کے نتیجے میں کشمیر کی 80، 90 فی صد مسلم آبادی پر ہندو اقتدار قائم ہوگیا۔ غلط فیصلوں اور ناانصافی نے پاکستان کو پنجاب کی مسلم اکثریت والے علاقوں سے محروم کردیا۔ جن میں کشمیر کے علاوہ گرداس پور، تحصیل انبالہ، تحصیل ہوشیار پور، تحصیل ڈسوپہ، تحصیل نکودر، تحصیل جالندھر، تحصیل فیروز پور، تحصیل زیرہ اور تحصیل قصور کا کچھ حصہ شامل ہے۔
یہ بات بڑی واضح اور ناقابل تردید ہے کہ کشمیر کی سرحد پاکستان کے ساتھ سات سو میل تک ملحقہے لیکن بھارت کے ساتھ اس کی مختصر سرحد ملتی ہے جس کا زیادہ حصہ سنگلاح پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ ضلع گردداس پور بھارت کے حوالے کرکے اُسے سہولت فراہم کی گئی۔ کشمیر پاکستان کے ساتھ جغرافیائی، اقتصادی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے جڑا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے دریائوں کے منبع بھی کشمیر میں ہیں۔ آج ریاست کے عوام اتنے عشروں بھارت کی قید میں رہ کر بھی پاکستان کے ساتھ روحانی رشتوں میں مضبوطی سے جڑے ہیں۔ شہید ہونے والے کشمیری پاکستانی پرچموں میں لپٹ کر دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وہاں سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ بھارت نے ایک عرصے سے کشمیر کے عوام کو رام کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈے کو آزما کر دیکھا، زور زبردستی، ظلم و زیادتی کا کوئی حربہ ایسا نہیں جسے روا نہ رکھا گیا ہو۔ لیکن کشمیریوں کے دل سے پاکستان کی محبت نہ نکالی جاسکی۔ بھارتی فوج کا ایک تہائی حصہ کشمیر میں مسلط ہے۔ حالیہ کشمیر پر قبضہ اور ہندوستان میں ضم کرنے سے قبل مزید پینتیس چالیس ہزار فوجی وہاں ڈمپ کردیے گئے ہیں۔ کشمیر کے سوا کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کچھ اس طرح کیا گیا کہ وہاں کرفیو نافذ ہے، کشمیر کے رہنمائوں کو نظر بند کیا ہوا ہے۔ غاصبوں کے یک طرفہ فیصلے کشمیر کو توڑ دیا۔ بھارت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کی۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا گیا۔ کشمیر سے متعلق اس فیصلے پر پارلیمنٹ میں کشمیر کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (PDP) کے 2 کشمیری اراکین نے احتجاج کیا تو انہیں ایوان سے باہر نکال دیا گیا۔ کشمیر کے معاملے میں کشمیر کے لوگوں کو بولنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔ آج کشمیر کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہاں مکمل طور پر کرفیو نافذ کردیا ہے، فون اور انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔ پورے کشمیر میں بھارتی حکومت نے نقل و حمل پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر پر صرف کشمیریوں کے حق کو قبول کیا گیا تھا۔ جس کے تحت کشمیر کی زمین کشمیریوں کے علاوہ بھارت کا کوئی شہری یا ادارہ نہیں خرید سکتا تھا۔ ووٹ ڈالنے کا حق بھی صرف کشمیریوں ہی کو حاصل تھا۔ اس آرٹیکل کی منسوخی سے کشمیر کی آبادی، وہاں کا جغرافیہ اور مذہبی صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔
کشمیر میں کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن کردیے جائیں گے، کیوں کہ اب غیر مسلم آباد کار کشمیر میں اُن کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ بھارت کے آئین میں دفعہ A-35 کشمیر کے آئین میں بہت پرانا آرٹیکل ہے۔ یہ دفعات مہاراجا نے 1932ء اور 1927ء کے درمیان بنائے تھے۔ جن کو بعد میں 1954ء میں نہرو نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے بھارت کے آئین میں شامل کردیا تھا۔ A-35 کے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں جائداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا نہ یہاں نوکری حاصل کرسکتا تھا اور نہ کشمیر میں آزادانہ سرمایہ کاری کرسکتا تھا۔ لیکن اب ان کے خاتمے سے کشمیر کی مسلم اکثریتی کردار کو بڑا خطرہ ہے۔ بڑی بڑی صنعتی کمپنیاں یہاں زمینیں خریدیں گی، دوسرے لوگ آباد ہوجائیں گے اور مسلمان اقلیت میں رہ جائیں گے۔ کشمیر میں بھارت کا تازہ ظلم و ستم خود اس کے لیے انتہائی خطرے کا سبب ہے۔ خود بھارت میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے، اس کا عمل قانونی نہیں ہے کشمیر کی حیثیت بھارت تبدیل نہیں کرسکتا۔ کشمیر کے وہ لیڈر جو کل تک بھارت کے ساتھ تھے آج بھارت کے اس اقدام کو غاصبانہ اقدام قرار دے رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ اپنے روابط کو غلط فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ حقیقت میں ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ وہ قائداعظم کے دوقومی نظریہ کو بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ بہرحال تاریخ کے اوراق کو پلٹا نہیں جاسکتا لیکن تاریخ ضرور بنائی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں امریکا پاکستان سے مدد چاہتا ہے، پاکستان کو امریکا سے کشمیر میں کشمیریوں کی مدد کے لیے کہنا چاہیے، ساتھ ہی اقوام متحدہ، پوری دنیا، خصوصاً اسلامی بلاک کو کشمیر کے حالات و واقعات سے آگاہی کے لیے مراسلے بھیجے اور فون پر رابطہ رکھے۔ کشمیر میں بھارت کا اقدام صدر ٹرمپ کو جواب بھی ہے۔ جو پاکستان کو اپنی ثالثی کا خواب دکھا رہے تھے۔