سوشل میڈیا کے ٹرک کی سرخ بتی

251

کئی دن سے واٹس اپ اور دیگر سماجی میڈ یا گروپوں میں ایک پوسٹ گردش میں ہے کہ آگے بڑھیں اقوام متحدہ کو آج کا دن گزرنے سے پہلے تین لاکھ دستخط پورے کرکے دینے ہیں اور بس ہم نے سماجی میڈیا پر کشمیر فتح کرلیا۔ ایک خاتون نے سویڈن سے منگل کی دوپہر 12.27 پر شیئر کیا 15141 دستخط درکار تھے۔ ہم نے اسے غور سے دیکھا، متعلقہ ویب سائٹ پر کلک کیا، اقوام متحدہ کا لوگو نظر آیا اور اس پر کشمیر میں بھارتی اقدام کے خلاف دستخطی مہم کا ذکر تھا۔ پبلک ایڈ گروپ پر 1427 پر بھی دوپہر 2.27 بجے یہی پیغام آیا اسی ویب سائٹ پر جائیں وہاں 70893 دستخطوں کی ضرورت تھی یعنی بارہ بجے 15141 پر دستخط درکار تھے اور ٹھیک دو گھنٹے بعد ان دستخطوںکی ضرورت تقریباً ساڑھے چار گنا بڑھ گئی یہ کیسے ممکن ہے۔ اب اور گروپس کا جائزہ لینے کی ٹھانی تو کئی گروپ کھنگال ڈالے۔ کراچی اسٹاپ پر پیر کی رات نو بج کر سینتیس منٹ پر 70136 دستخط درکار تھے اسی گروپ پر پیر کی رات بارہ بج کر بیس منٹ پر 23289 دستخط کی ضرورت تھی پھر اسی گروپ میں منگل کو دوپہر بارہ بج کر اننچاس منٹ پر اعداد نے پھر پلٹا کھایا اب یہاں 86876 دستخط درکار ہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا یہ کیا ماجرا ہے۔ کون سا کھیل ہے ایک تو یہ کہ آج کا دن ختم کب ہو گا۔ اور آج کے دن سے مراد کیا ہے۔ ابھی اور تحقیق یا تفریح کا موڈ تھا اس لیے ورلڈ جرنلسٹ کلب کے گروپ میں دیکھا کہ پیر کی رات اٹھ بج کر انتیس منٹ پر 10964 دستخطوں کی کمی کا ذکر ہے اسی گروپ میں رات نو بج کر سینتیس منٹ پر یہ مطلوبہ تعداد 70126 رہ گئی، میڈیا اینڈ نیوز اپڈیٹ میں پیر منگل کی رات بارہ بج کر بیس منٹ پر 11549 دستخط درکار تھے یہ گروپ لندن سے آپریٹ ہوتا ہے اسی گروپ میں منگل کی دوپہر ایک بج کر چھبیس منٹ پر کسی نے رات بارہ والی پوسٹ ری پیٹ کی اس پر ویب سائٹ کھولی کاؤنٹر چل رہا تھا ڈھائی لاکھ سے زیادہ دستخط ظاہر کیے جارہے تھے گویا تین لاکھ دستخط میں صرف چار ہزار سے کچھ زیادہ دستخط درکار تھے جذبہ ایمانی رکھنے والے چند لمحوں میں تعداد پوری کر دیں گے لیکن جماعت اسلامی ضلع قائدین کے گروپ میں منگل کی صبح سات بج کر چوبیس منٹ پر یہی پیغام شیئر ہوا اب یہاں سے وزٹ کیا تو وہی ڈھائی لاکھ دستخط تھے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ جب واٹس ایپ اور سوشل میڈیا نیا نیا آیا تھا تو اسی طرح ایک پیغام چل رہا تھا کہ فلسطینی تنظیم حماس نے اس جمعے کو سورۃ فتح کا وردکرنے کی اپیل کی ہے۔ اس وقت تو کہا جا سکتا تھا کہ سوشل میڈیا نیا نیا آیا ہے اس لیے لوگ سمجھے نہیں یہ ’’اس جمعہ‘‘ کئی مہینے تک چلتا رہا اور ہم ایمانی جذبے کے تحت اسے فارورڈ کرتے رہے۔ اس وقت ہم نے توجہ دلائی کہ بھائیو… یہ کون سا جمعہ ہے جو کئی مہینے سے چل رہا ہے۔ پھر اس قسم کے دوسرے پیغامات کے بارے میں بھی توجہ دلائی۔ لیکن سوشل میڈیا ہمارے کچے ذہنوںکو بہا کر لے گیا۔ اب بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کے چمپئن بن گئے ہیں۔ لیکن اب بھی سب آنکھ بند کر کے اقوام متحدہ کے دستخطوں والے پیغام کو دھڑا دھڑ فارورڈ کر رہے ہیں۔ وہ آج کا دن ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔ پیر سے منگل اور منگل سے بدھ آگیا اور بدھ کو یہ اطلاع یوں سامنے آئی کہ آج کا دن ختم ہونے تک پانچ لاکھ دستخط پورے ہونے میں صرف 11 ہزار اور چند دستخط باقی ہیں۔ لہٰذا ایمانی جذبے سے ویب سائٹ پرلوگ جا جا کر دستخط یا پٹیشن سائن کر رہے ہیں۔
اچھا چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ آج کا دن ایک دن کے لیے ہوتا ہے، دوسرا دن تین لاکھ پٹیشن کا تھا۔ دوسرا آج کا دن پانچ لاکھ پٹیشن کا تھا۔ اس ساری بحث سے قطع نظر اگر پانچ لاکھ نہیں پانچ کروڑ پٹیشن سائن کر دی جائیں توکیا ہوگا۔ آرٹیکل 270 کی موجودگی میں 72 برس سے کشمیر ریاست نہیں رہا۔ بلکہ ایک مقبوضہ علاقہ رہا اور ایک جیل کی طرح رہا۔ 72میں سے 35 برس تو ہڑتالوں اور کرفیو میں ریاست بند رہی۔ سیاسی رہنمائوں کے لیے جیل اور حریت پسندوں کے لیے ٹارچر سیل۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کا پھر بھی فائدہ تھا۔ پتا نہیں کیا فائدہ تھا۔ اسی طرح دفعہ 35 اے مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت تھی۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ دفعہ 35 اے نے مسلمانوں کا کتنا تحفظ کیا۔ یہ تو قانونی باتیں ہیں قانون ضرور ہونا چاہیے۔ اور پاکستانی حکام اور عوام چاہیں تو اسے یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن خدارا ہوائی پوسٹوں کے پیچھے نہ دوڑیں۔ کروڑوں خطوط اور کروڑوں پٹیشنیں کسی کام کی نہیں جو کام چار پانچ ہزار مجاہدین کرتے تھے وہ بہت تھا۔ یہ سوشل میڈیا کے ٹرک کی سرخ بتی ہے اس کے پیچھے بھاگتے رہیں منزل کا پتا نہیں چلے گا۔