بتوں سے تجھ کو امیدیں

289

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سقوط کشمیر!! لیکن ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ پرامن رہنا ہے، جنگ نہیں کرنی، کسی بھی محاذ پر بھارت کو زک نہیں پہچانی ہے۔ کشمیری جوان، بچے، یونی فارم میں ملبوس اسکول کی بچیاں بے خوف ہوکر چند قدم کے فاصلے سے بھارتی فوج پر پتھرائو کررہی ہیں اور ہماری شیردل قیادت قرار دادوں اور تقاریر میں پناہ تلاش کررہی ہے۔ عالمی برادری سے التجائیں کررہی ہے کہ وہ آئے اور اہل کشمیرکو بھارت کے ظلم سے بچائے، آزاد کرائے۔ ہم 1971 سے بھارت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ جب بھارت آدھا پاکستان ہڑپ کرگیا تھا۔ بقیہ آدھا بھی اللہ کی مہربانی سے بچ گیا۔ امریکا نے بھارت کو مغربی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے سے روکا تھا۔ مشرقی پا کستان کا بدلہ لینا تو درکنار کوئی چھوٹا موٹا محاذ کھولنا بھی ہمارے حاشیہ خیال میں نہیں۔
ہمارے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی مسلسل ایسے بیانات دے رہے ہیں جو خوف اور بزدلی کا پتا دیتے ہیں۔ شہباز شریف سے جھلا کر یہ پوچھنا ’’کیا میں بھارت پر حملہ کردوں؟‘‘ بار بار ایٹمی جنگ کی بربادیوں کا ذکر کرنا، ایٹمی جنگ کے ہول سے وہ دنیا پر کیا ثابت کرنا چا ہتے ہیں؟ کیا ایٹمی جنگ سے صرف ہمارا نقصان ہوگا؟ بھارت کا نقصان نہیں ہوگا؟ بھارت کیوں اس خوف میں مبتلا نہیں؟۔ پاکستانی قیادت کی طرف سے کہیں نہ کہیں کوئی ضمانت تو دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے بھارت کو تسلی دیتے ہوئے کہا ہے’’کشمیر میں بھارتی اقدام پر بھارت کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت کو اطمینان دلارہے ہیں ’’افغانستان سے تجارت کے لیے بھارت کو دی گئی راہداری بند نہیں کی جارہی‘‘۔
بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی معطلی، سفارتی تعلقات محدود کرنا، پاک بھارت تعلقات پر نظر ثانی، بھارت کے غیر قانونی اقدام کو سلامتی کونسل میں چیلنج کرنا، یوم آزادی کے موقع پر کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی، بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانا، یہ وہ اقدام ہیں جن کے ذریعے ہم نریندر مودی پر کپکپی طاری کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی دلیری، بے خوفی، شجاعت اور بہادری کا ایک ہی میدان ہے۔ شریف خاندان۔ بھارت کے ہاتھوں اتنی بڑی ذلت اور پسپائی کے بعد بھی عمران احمد خان نیازی کا کسی سے مقابلہ ہے تو وہ مریم نواز شریف ہے۔ نہ جانے وہ مریم نواز شریف سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں۔
عمران خان ایک گھٹیا سطح کے منتقم مزاج لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ نواز شریف کو اذیت دینے کے لیے انہوں نے نواز شریف کے سامنے مریم نواز کو گرفتار کرایا۔ نواز شریف کے ساتھ ساتھ وہ سی پیک اور پاک چین دوستی کے بھی درپے ہیں کیونکہ ان حوالوں سے نواز شریف کا روشن امیج تصور میں ابھرتا ہے۔ اب حکومتی سطح پر کہیں پاکستان اور چین کے حوالے سے شہد سے میٹھی اور سمندروں سے گہری دوستی کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔ ایک سال کی قلیل مدت میں انہوں نے جس تیز رفتاری سے پاک چین دوستی کو رول بیک کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سقوط کشمیر کے بعد انہیں خود چین جانا چا ہیے تھا لیکن انہوں نے وزیر خارجہ کو بھیجنے پر اکتفا کیا۔ متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کھل کر بھارت کی تائید کی لیکن ہم نے وضاحت مانگنا گوار ا نہیں کیا۔ ترکی، ملائشیا، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا نے ٹھنڈے پیٹوں ہمیں بھارت سے مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ مذاکرات کس سے؟ بھارت سے؟ جو پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش کو اس طرح ٹھکراتا رہا ہے جیسے کسی فقیرکو اہانت سے منع کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھارت سے ان گنت مذاکرات کے دور ہوچکے ہیں۔ کیا حاصل ہوا۔ بھارتی سیاستدان دنیا کے چالاک ترین سیاست دان ہیں۔ وہ پاکستان سے مذاکرات مسئلہ حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ کچھ مہلت لینے اور وقت گزارنے کے لیے کرتے ہیں۔
بغیر طاقت کے، دشمن کو مغلوب کیے بغیر، مذاکرات سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اہل غزہ اور فلسطین کی حالت دیکھ لیجیے۔ طالبان مذاکرات کے ذریعے امریکا سے افغانستان حاصل نہیں کررہے۔ شمشیر وسنان کی قوت سے دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ہی مذاکرات فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن شمشیر وسناں کا اظہار کون کرے جب بھارتی درندے ہماری مائوں بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پامال کررہے ہیں، ہمارے جوانوں کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنارہے ہیں عمران احمد خان نیازی کی حکومت بھارتی گلو کار میکا سنگھ کو 14ساتھیوں سمیت پاکستان کے ویزے جاری کررہی ہے۔ ایک صوبے کا گورنر اس طائفے کا استقبال کررہا ہے۔ بھرپور میوزیکل پروگرام منعقد کیا جارہا ہے۔
آرمی چیف جنرل باجوہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے پر کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا ’’ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں کہ ہم سارے سفارتی اور سیاسی آپشن استعمال کریں گے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری قانون انصاف اور اصولوں کے لیے کھڑی ہو تاکہ اس ریاست کے لوگوں کی مشکلات حل کی جاسکیں‘‘۔ اس طرح کی باتوں سے ہم کسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ شام میں مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا گیا، غزہ اور فلسطین کے مسلمان آئے دن اسرائیلی ظلم وستم کے نشانے پر رہتے ہیں، میانمر میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح ارزاں کیا گیا، بھارتی درندے اہل کشمیر کو نوچ رہے ہیں، بھنبھوڑ رہے ہیں، عورتوں کی عزتیں تار تار، جوانوں، بوڑھوں اور بچوں پر بدترین تشدد کررہے ہیں بین الاقوامی برادری کہیں بروئے کار آئی؟ کہیں آگے بڑھ کر ظالموں کے ہاتھ روکے۔؟ عالمی برادری سے یورپ اور امریکا مراد لی جاتی ہے۔ یہ وہ عالمی برادری ہے جو ماضی کی طرح آج بھی چھوٹی چھوٹی قوموں کو نگل رہی ہے۔ امن وامان کی سب سے بڑی دشمن رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف خونریزیوں میں مشغول و مصروف ہے۔ اس عالمی برادری سے مسلمانوں کے باب میں خیر کی توقع!!!
نر یندر مودی ایک فتنے کا نام ہے۔ ایک ایسا فتنہ طرح طرح کے شیطان جس کے ہم رکاب ہیں۔ یہ فتنہ پرور شیطانی قوتیں ہندوستان میں مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ انہیں مارا جارہا ہے، بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے، ان کی املاک اور کاروبار برباد کیے جارہے ہیں۔ جنونی ہندئوں پر جہانگیری اور کشور کشائی کا بھوت سوار ہے۔ آرٹیکل 370کا خاتمہ مسلمانوں کے خون بہانے کی وسعت کی علامت ہے۔ ایسے میںجنگ جائز نہیں فرض ہوجاتی ہے۔ یہ شیطان مسلمانوں اور انسانیت کے دشمن ہیں۔
اہل کشمیر کو اب احتجاج نہیں جہاد کی طرف آنا ہوگا۔ وہ چالیس سال سے احتجاج کررہے ہیں اور پسپائی کی طرف جارہے ہیں۔ افغان مجاہدین نے نہ پاکستان کی طرف دیکھا، نہ عالمی برادری سے اپیلیں کیں، نہ احتجاج کیا بلکہ صرف جہاد کیا۔ آج وہ کامیاب اور کامران ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی فوجی اور سول حکومت کو اہل کشمیر کے لیے کچھ نہیں کرنا۔ پاکستان میں جو جماعتیں اور گروہ اہل کشمیر کے لیے ریلیاں نکال رہی ہیں، مظاہرے کررہی ہیں۔ ان کا مقصد اپنی نام آوری اور جذباتی تسکین نہیں ہونا چاہیے، اس کا مقصد محض یکجہتی کا اظہار بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ حکومت پر ایک ایسا شدید دبائو بلڈ کرنا ہو کہ وہ اہل کشمیر کے لیے سرحدیں کھو لے، کشمیری مزاحمتی گروپوں پر پابندیاں ختم کرے، ان کی مدد کرے اور افواج کو موبلائز کرے۔
ہمیں سوشل میڈیا کو بھرپور استعمال کرنا ہوگا۔ جب بیت المقدس مسلمانوں کے پاس تھا تو ایک عیسائی پادری گدھے پر سوار ہوکر یورپ میں شہر شہر چکر لگاتا اور لوگوں کو غیرت دلاتا تھا کہ مسیح کی جائے پیدائش مسلمانوں کے پاس کیوں ہے۔ وہ راہبوں، سیاست دانوں، فوجوں اور عوام کو غیرت دلاتا رہا یہاں تک کہ پورا مغرب مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ آج سوشل میڈیا کی بدولت یہ کام زیادہ احسن طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔