کراچی ’’وسائلستان سے مسائلستان‘‘ تک

250

میرا شہر کراچی جتنا وسیع ہے اس کے حقیقی باشندے جس قدر وسیع القلب ہیں اسی طرح اس کے ساتھ حکمران تنگ نظری کا اظہار کرتے ہیں۔ حکمران کراچی کو سندھ کا حصہ ظاہر تو کرتے ہیں مگر خود انہوں نے سندھ کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ حالاںکہ وہ سندھ کی تقسیم کے نام پر آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب ان سے خصوصاً ملازمتوں کے حوالے آنے والے سرکاری اشتہارات میں اربن اور دیہی سندھ کی وضاحت کرنے یا کراچی کا ذکر نہ کیے جانے کے بارے میں استفسار کیا جائے وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ انہیں یہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ’’اربن سندھ‘‘ ہے اس لیے اس کے لیے لفظ کراچی استعمال کرتے ہیں۔
میں اس تحریر میں کسی ’’اربن سندھ‘‘ کی بات نہیں کررہا بلکہ صوبے کے دارالحکومت کراچی کی بات کررہا ہوں۔ ملک کے اس سب سے بڑے شہر کی بات کررہا ہوں جو دوسرے صوبوں کے لوگوں کو پالتے ہوئے اپنی ترقی کے تسلسل کو معطل کرچکا۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کی اپنی حقیقی آبادی تو صرف ایک کروڑ 49 لاکھ ہے یا رہ گئی حالاںکہ دنیا اسے ڈھائی تا تین کروڑ آبادی کا شہر سمجھتی ہی نہیں قرار بھی دیتی ہے۔ اس بات پر کراچی والے یہ پوچھتے ہیں کہ پھر عالمی سطح پر اس کی آبادیاں ڈھائی سے تین کروڑ کیوں ظاہر کی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ حالاںکہ اس کا جواب یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ’’کراچی والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ کراچی کی خوش قسمتی ہے یا اعزاز کہ یہ چاروں صوبوں کی زبانیں بولنے والے لوگوں کے اچھے روزگار، تعلیم اور رہائش کا بندوبست کرتا ہے مگر خود اس کے حقیقی باشندے ان تمام سہولتوں سے اب محروم ہیں۔ کراچی کے ہر بڑے سرکاری و نجی اداروں میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے مل جائیں گے مگر یہاں کراچی کا اپنا باسی اب اقلیت میں نظر آنے لگا ہے۔
کراچی کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ کے الیکٹرک خود ایک غیر ملکی کمپنی ابراج کے تحت چل رہا۔ اس ادارے کے بارے میں سپریم کورٹ بھی سخت ریمارکس دے چکی ہے۔ حالیہ مجموعی طور پر صرف چار روزہ بارشوں کے دوران کے الیکٹرک کی غفلت کی باعث سے کراچی مقتل بنا رہا۔ اس کا ہر پول قاتل کے روپ میں مختلف علاقوں میں خوف کی علامت بنا رہا۔ مگر کسی نے اس ادارے کی لگام نہیں کھینچی، چار روزہ کی بارشوں میں کے الیکٹرک کے ناقص اور غفلت و لاپروائی سے بھر پور نظام نے 33 افراد کی جانیں لے لی جن میں نو کم عمر بچے، دو سگے بھائی بھی شامل تھے۔ بارشوں سے پیدا ہونے والی شہر کی ابتر صورتحال میں میئر وسیم اختر نے کوئی کام کیا تو یہ ہے کہ انہوں نے ڈیفنس میں تین نوجوانوں کی کرنٹ لگنے سے ہلاکت پر تھانے جاکر مقدمہ درج کرادیا جو جاں بحق ہونے والے بھائیوں کے والد نے اپنی مدعیت میں درج کرایا ہے۔ ویسے تو کے الیکٹرک کی غفلت کا نشانہ بننے والوں کے بارے میں این جی او کے ڈی سی کے ظفر عباس بھی بہت سرگرم ہے لیکن جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن جو مسلسل کردار ادا کررہے ہیں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کے الیکٹرک جوکچھ کررہی ہے اس کے خلاف سب سے بڑی اور مسلسل تحریک تو صرف جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے چلائی جارہی ہے۔ مگر سوال یہاں یہ ہے کہ وفاق میں موجود پی ٹی آئی اور سندھ کی پیپلز پارٹی اور بلدیہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ شہر کے لیے کیا کررہی ہے۔ یہ تینوں جماعتیں کو مسائل میں گھرا دیکھنے کے باوجود صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں۔ مذکورہ تینوں جماعتوں کے لوگ فوٹو سیشن کے سوا کچھ اور کرتے تو بارش کا پانی کئی علاقوں میں اب تک جمع نہیں ہوتا۔ شہر ’’وسائلستان سے مسائلستان‘‘ نہیں بنتا۔ تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی، پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ اور میئر کراچی اگرچہ بارش کے دوران ایک ہی جیپ میں شہر کا دورہ کرتے ہوئے اور یکجہتی کا اظہار کرتے نظر آئے لیکن اس کے باوجود شہر سے کچرے کے ڈھیر ختم نہیں کیے جاسکے اور نہ ہی شہریوں کو لائنوں کے ذریعے پانی ملنا شروع ہوسکا۔ سندھ حکومت کی زیر نگرانی چلنے والے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بارشوں کے دوران کسی بھی مقام پر اپنی موجودگی کا احساس تک نہیں دلاسکی۔ مختلف علاقوں میں بارش سے ہونے والے نقصانات اور بارش کے بعد جگہ جگہ پڑی ہوئی قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اپنی حکومت کو آئینہ دکھا رہی تھیں۔ جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی اسد اللہ خان وزیراعلیٰ اور وزیر و مشیر کے ساتھ سڑکوں پر بارش کا پانی خارج کے لیے کارروائی کرتے ہوئے نظر تو آئے لیکن حب ڈیم بھر جانے کے باوجود ضلع غربی کے متعدد علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کی شکایات کو وہ ختم نہیں کرسکے۔
کراچی سمیت صوبے بھر میں خصوصاً بارشوں کے دوران صوبائی وزراء اور مشیراںسرگرم تو رہے لیکن ان کی سرگرمیوں سے عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اتوار کے روز کرنٹ لگنے سے 3 نوجوانوں کے جاں بحق ہونے پر میئر کراچی ایف آئی آر درج کرانے درخشاں تھانے پہنچے تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ مقدمہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کی مدعیت میں درج کیا جائے گا، جس پر میئر کراچی سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ درج کرائے بغیر وہ نہیں جائیں گے چاہے اپنی سیاسی جماعت یا تمام جماعتوں کو بلانا پڑے۔ بالآخر میئر کراچی وسیم اختر 6 گھنٹے بعد جاں بحق لڑکوں کے اہل خانہ کی مدعیت میں الیکٹرک کے سی ای او مونث علوی، مالک عارف نقوی اور دیگر عہدے داران خلاف ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہوگئے، ایف آئی آر قتل بلسبب کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک کی ہیڈ آف میڈیا نور افشاں کا کہنا تھا کہ مختلف علاقوں میں پانی کھڑے ہونے کے باعث کرنٹ لگنے کے واقعات پیش آئے، پانی بھر جانے سے بجلی بحال کرنے میں بھی مشکلات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی کہ بارش میں بجلی کے کھمبوں سے دور رہیں۔