ستر کی دہائی میں اہل بہاولپور صوبہ بہاولپور کے لیے بہت جذباتی تھے اگر اس دور میں لیڈ دینے والوں کے بجائے لیڈ کرنے والا لیڈر مل جاتا تو صوبہ بھی بن جاتا مگر یہاں کے سیاست دانوں کے لیے یہ خسارے کا سودا تھا اور سیاست دان خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب صوبہ بہاولپور کی حمایت میں احتجاج کیا جارہا تھا تو احتجاجی ریلیوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا گیا تھا۔ لوگ اس آفت ناگہانی سے گھبرا کر فرید گیٹ کے اندر گلی کوچوں میں بھاگ رہے تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر دروازے پر خواتین اور بچے کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور جو بھی برتن ہاتھ لگا اس میں پانی بھر کر کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں، بھائی یہ رول پانی میں گیلا کرکے آنکھوں میں لگالو جلن ختم ہوجائے گی پولیس نے فائرنگ بھی کی چند جانیں بھی گئیں مگر سیاست دانوں نے اس یکجہتی اور بھائی چارے کے دور سے اہل بہاولپور کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ جس دھرتی کی مانگ میں بیٹوں کا لہو چمک رہا ہو وہ کبھی بیوہ نہیں ہوتی۔ مگر سیاست دانوں نے اس لہو کو تھوک سے بھی زیادہ بے قوت کردیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے صوبہ بہاولپور کے حوالے سے ’’جھانسا‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جواباً ایک قاری نے بتایا کہ طارق بشیر چیمہ کے والد محترم صوبہ بہاولپور کے مخالف نہیں تھے وہ ان لوگوں کی مخالفت کیا کرتے تھے جو صوبہ بہاولپور کی بحالی کی بات کیا کرتے تھے کیوں بہاولپور کبھی صوبہ تھا ہی نہیں اور اب تحریک استقلال کے رہنما نے بھی گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھالیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بہاولپور کے صوبہ ہونے کے ان کے پاس بہت سے ثبوت ہیں بہت سے اخباری تراشے اور تاریخی مواد موجود ہے اور یہ سب ایسے ناقابل تردید ثبوت ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن ہی نہیں۔
وردگ صاحب آپ کے پاس بہاولپور کے صوبہ ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو انہیں شائع کردیں تا کہ صوبہ بہاولپور کے حوالے سے اہل بہاولپور کو گمراہ کرنے والوں کا منہ بند کیا جاسکے۔ ہمیں حیرت ہے کہ وردگ صاحب نے پیری کیوں چھوڑی ہے؟ اور ان کا اصل بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ بہاولپور 1955ء تک ریاست تھا اور وہ یونٹ میں بھی ریاست بہاولپور کی حیثیت سے شامل ہوا تھا۔ خدا جانے وردگ صاحب کے پاس صوبہ بہاولپور ہونے کے ثبوت کہاں سے آگئے۔ صوبہ بہاولپور کی بحالی کا رٹا لگانے والے اس حقیقت کو تسلیم کرلیں تو بہتر ہوگا۔ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اگر نواب آف بہاولپور پاکستان کی مالی امداد نہ کرتے تو جواہر لعل نہرو کی پیش گوئی درست ثابت ہوسکتی تھی۔ بہاولپور انڈیا کی امیر ترین ریاست تھی، تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ بعض بدنہاد سیاست دان بہاولپور کو صوبہ نہ بنانے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ بہاولپور صرف تین اضلاع پر مشتمل ہے اس لیے صوبے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ نواب بہاولپور نے قیام پاکستان کے بعد کروڑوں روپے کا عطیہ دیا اور ابتدائی چند ماہ تک سرکاری ملازمین کو تنخواہ دی۔ یادش بخیر! خیبرپختونخوا کی تحصیل کو ضلع کا درجہ نہ دینے والے اس کی کم آبادی کو جواز بنایا کرتے تھے مگر وہاں کے رہنمائوں نے اس دلیل کے بخیے ادھیڑ دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے جتنے رقبے میں ایک ہزار افراد رہتے ہیں بٹ گرام میں اتنے ہی رقبے پر دس افراد رہتے ہیں اور پھر بالآخر انہوں نے تحصیل بٹ گرام کو ضلع بٹ گرام بنا کر ہی دم لیا۔ ہمیں صوبہ بہاولپور چاہیے جو ہماری ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہاں تو ایک نائب قاصد لاہور سے آتا ہے قیام پاکستان کے وقت بہاولپور امیر ترین ریاست تھی اور لاہور مقروض تھا خیر! یہ مقروض تو رہا ہے مگر حالات یہی رہے تو اہل بہاولپور اس مقروض کا جنازہ دفن نہ ہونے دیں گے۔