یہ تاثر کیوں گہرا ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کشمیر کا سودا کرچکی ہے؟ اس لیے کہ ہماری قیادتیں ماضی میں ایسا کرتی رہی ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کردیے۔ جنرل یحییٰ خان نے نصف پاکستان بھارت کے سپرد کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے سیاچن بھارت کو دے دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے پورا پاکستان امریکا کی گود میں ڈال دیا۔ بھارت نے متعدد مرتبہ کشمیر کی سرحد پر باڑھ لگانے کی کوشش کی لیکن نہ لگا سکا۔ یہ جنرل پرویز مشرف تھے جنہوں نے 2004 میں بھارت کو 500 کلو میٹر طویل کنٹرول لائن پر آہنی باڑھ لگانے کی اجازت دے دی۔ جنرل کیانی نے سیکڑوں فوجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’کشمیر کی تحریک آزادی سے دستبرداری ہمارے مفاد میں ہے‘‘۔ صدر آصف علی زرداری بھارت کی محبت میں یہاں تک چلے گئے کہ انہوں نے اسے ’’نو فرسٹ نیو کلیئر اسٹرائیک‘‘ کا معاہدہ کرنے کی آفر کردی۔ انہیں ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارت اور ہر بھارتی میں پاکستان بسا نظر آتا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی شہرت جہادی تنظیموں پر کریک ڈائون کی رہی ہے۔ نواز شریف بارہا قرار دے چکے تھے کہ جہادی تنظیموں کے ساتھ ہم نہیں چل سکتے۔ جہادی تنظیموں کے ساتھ تو وہ چلنے پر تیار نہیں تھے لیکن مودی سے تعلقات استوار کرنے میں وہ پیش پیش رہے۔ وزیر اعظم عمران خان قرار دے چکے ہیں کہ آئی ایس آئی نے امریکا کو اسامہ بن لادن کا پتا دیا۔ جنرل باجوہ سدھو جیسے معمولی اور غیراہم بھارتی سیاست دان کو بڑھ بڑھ کر جھپیاں ڈالتے رہے جو ایک ایٹمی ملک کے آرمی چیف کے عہدے کے یکسر منافی تھا۔ کرتار پور بارڈر کا افتتاح کرنے بھی وہ خود تشریف لے گئے۔ وہ بار بار بلاوجہ بھارت کو یقین دلاتے رہے کہ آپ بات کریں ہم مصالحت کے لیے تیار ہیں۔ رہے عمران خان تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نریندر مودی کو مسیحا قرار دے چکے تھے۔
دو ہفتے ہونے کو آرہے ہیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو لاک ڈائون کر رکھا ہے۔ کشمیر کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔ حاملہ عورتیں، شیر خوار بچے، بیمار اور زخمی افراد کس طرح جی رہے ہوں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ وادی میں خوراک اور ادویات کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کرکھا ہے۔ جمعرات 15اگست کو بھارتی فائرنگ سے 3پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ بھارت کی بے خوفی اور دلیری کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دوسال میں بھارت 1970 مرتبہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ ہم صرف ردعمل تک محدود ہیں۔ جوابی فائرنگ ہی ہماری بہترین حکمت عملی ہے۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ آگے بڑھ کر از خود بھارت پر حملہ نہیں کرنا۔ ہمارے حکمران شاد ہیں کہ 50برس بعد مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہورہا ہے۔ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ ایسی سفارتی کامیابیاں ماضی میں بھارت کا کیا بگاڑ سکیں جواب کچھ بگاڑ لیں گی۔ اس سفارتی کامیابی کو سلامتی کونسل کا کوئی بھی ایک ملک ویٹو کرکے بھارت کو پسپائی سے بچا لے گا۔ 1971 میں سلامتی کونسل کے ایسے اجلاس مشرقی پاکستان کو بچانے میں کتنے معاون ثابت ہوئے۔ اگر سلامتی کونسل کا اجلاس اتنا ہی فیصلہ کن ہے تو وزیراعظم عمران خان کیوں زمین ہل گئی لیکن گل محمد اپنی جگہ سے نہ ہلا کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ انہیں وزیر خارجہ کو بھیجنے کے بجائے خود چین جانا چاہیے تھا۔ ایسا کرنا تو درکنار انہوں نے اپنے حالیہ دوست روسی صدر پیوٹن کو ایک فون کال کرنا گوارا نہیں کیا۔ عمران خان ایک نیوز ریڈر بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کا کردار خبریں سنانے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’بھارت کا آزاد کشمیر پر حملے کا ارادہ ہے‘‘۔ ’’مقبوضہ وادی میں قتل عام کے لیے آر ایس ایس کے غنڈے بھیجے جارہے ہیں‘‘۔ ’’آر ایس ایس کا نظریہ ہٹلر سے لیا گیا‘‘۔ ’’مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘‘۔ اب انہیں کون بتائے کہ حضور مودی اینٹ بھی مار چکا ہے اور پتھر بھی آپ براہ کرم جواب دے دیجیے۔
مودی کا پروگرام یہ ہے کہ وہ آزاد کشمیر پر کوئی جارحانہ قدم اٹھا کر جنگی محاذ گرم کردے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا ماحول ہی نہیں واقعتا جنگ برپا کردے۔ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوں، فوجیں پیش رفت کریں، فضائی حملے ہوں۔ عالمی برادری حرکت میں آئے۔ اقوام متحدہ کردار ادا کرے۔ جنگ بندی کرائے اور اس کشمکش میں دنیا بھول جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیا کررہا ہے۔ پاکستان کی قیادت کو مودی کے ارادوں کی خبر ہے۔ وہ منتظر ہیں کہ مودی آزاد کشمیر پر حملہ کرے۔ ہماری افواج آزاد کشمیر کے دفاع میں مصروف ہوجائیں۔ جنگی ترانوں اور پاک فوج کی فتح کی خبروں میں کسے یاد رہے گا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کو سونپ دیا گیا ہے۔ اسی لیے ہماری قیادت بڑھ چڑھ کر آزاد کشمیر پر حملے کی صورت میں بھارت کو جواب دینے کی باتیں کررہی ہے۔ آزاد کشمیر کا دفاع کرکے وہ مقبوضہ کشمیر کے باب میں اپنی غداریوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا حصول اور اس کے لیے بھارت سے جنگ کرنے کا آپشن ہماری سول اور فوجی قیادت کے حاشیہ خیال میں بھی موجود نہیں ہے۔
امریکا نے طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔ طالبان نے طاقت کے زور پر ہی امریکا کے اس قبضے کو ریورس کیا۔ مودی نے طاقت کے زور پر ہی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کیا ہے۔ طاقت کے زور پر ہی مودی کو واپسی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود مسلمانوں کو ظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ انہیں مٹا ڈالیں۔ ہم اس امت کا حصہ ہیں کہ جب ان کی تعداد تین سو تک پہنچی تو وہ صرف اہل مکہ نہیں تمام عرب کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترآئی۔ آزادی کے وقت جب نہ ہم ایٹمی طاقت تھے، نہ ڈھنگ کی فوج ہمارے پاس تھی، نہ بڑی مقدار میں ہمارے پاس اسلحہ تھا لیکن ایک برس کے جہاد کا نتیجہ تھا کہ ہم نے 38فی صد کشمیر آزاد کرالیا۔ گزشتہ 72برس سے ہم اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرتے کرتے ایٹمی قوت بن گئے، دنیا کی بہترین لڑاکا فوج ہمارے پاس ہے لیکن بتدریج ہم پاکستان کو گنواتے چلے جارہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے ذلت اور پسپائی کی جو راہ اختیار کی ہے اسے خود کشی کے سوا کسی لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ظالموں کو ظلم کا موقع دینے کے مترادف ہے۔ اس راہ کو اپنانے کے بعد مظلوموں کے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ وہ حقارت اور رسوائی کی زندگی کو اپنا معمول اور نصیب کا لکھا سمجھ کر اس پر قانع ہوجائیں۔ یہ رویہ شر اور فساد کی قوتوں کے لیے میدان خالی چھوڑنے کے ہم معنی ہے۔ یہ زمین پر دوزخ کو وسعت دینا ہے۔ ہمیں عالمی برادری پر یقین ہے، امریکا پر اعتماد ہے، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے امید ہے، سلامتی کونسل کے اجلاسوں پر اعتبار ہے، بیک چینل ڈپلومیسی پر بھروسا ہے اگر اعتماد، یقین اور بھروسا نہیں ہے تو جہاد پر نہیں ہے۔ ہم نے اپنے دریا گنوا دیے، آدھا ملک کھودیا، سیاچن سے دست کش ہوگئے۔ اب کشمیر بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا لیکن ہم جہاد کی طرف آنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم جنگوں سے ڈرنے لگے ہیں۔ ملک ومال، جاہ واقتدار کی محبت ہم پر اس حد تک غالب آگئی ہے کہ ہم ڈرتے ہیں اگر ہار گئے تو ہمارا کیا بنے گا۔ جہاد فتح یا شکست کے لیے نہیں اللہ کے حکم کی اطاعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ میدان میں اتر کر تو دیکھیے آسمانوں سے فرشتے قطار در قطار آپ کی نصرت کو اتر نے لگیں گے۔
ہم اپنا معاملہ لے کر کن کے پاس جارہے ہیں؟ وہ جنہوں نے انسانیت کو ہلاکت اور بربادی، مہلک ترین اسلحے، دیو ہیکل جنگی جہازوں، تباہ کن ہوائی جہازوں اور زہریلی گیسوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جو مسلمانوں کی بربادی کے لیے ہر جائز اور ناجائز وسیلے کو صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ تہذیب حاضر کے ان جدید وحشیوں کا ایک ہی مقصد ہے امت مسلمہ کی شدید، ہولناک اور تباہ کن بربادی۔