Discourse کے معنی ہیں: مباحثہ، مکالمہ، تبادلۂ خیال، اظہارِ خیال وغیرہ۔ آج کل امریکا اور یورپ سے لے کر پاکستان تک سب کو دینی مدارس کا غم کھائے جارہا ہے اور وہ اس درد میں گھلے جارہے ہیں، چنانچہ ’’مدرسہ ڈسکورس‘‘ کے عنوان سے سیمینار ہورہے ہیں، کانفرنسیں ہورہی ہیں، مکالمے، مباحثے اور تبادلۂ خیالات کی مجالس سج رہی ہیں اور اس کے لیے فنڈز بھی بیرونی ممالک سے وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ مدرسہ سے مراد دینی مدارس وجامعات ہیں، حالاںکہ عالمِ عرب میں عصری تعلیم کے اسکولوں کو بھی مدرسہ ہی کہا جاتا ہے۔ سوہم دینی مدارس وجامعات کی ہمدردی میں شب وروز اپنا خون جلانے والوں کا شکر بجالاتے ہیں، لیکن اصل مسئلے سے پہلے ذرا ہم اُس تعلیم کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں، جس پر قومی خزانے سے کھربوں، پدموں روپے خرچ ہوچکے ہیں اور خرچ ہورہے ہیں اور بحیثیت ِ مجموعی قومی خزانے سے دفاعی بجٹ کے بعد سب سے زیادہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، ذرا اس تعلیم کے نتائج پر ولسن سنٹر امریکا کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے:
’’پاکستان وسیع تر تعلیمی بحران سے دوچار ہے، کروڑوں پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے، جو جاتے ہیں تو اساتذہ کو غیر حاضر پاتے ہیں، دوسرے چیلنجز کے علاوہ تعلیمی ماحول انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ جب پاکستان اور بیرونِ پاکستان اس بحران پر بات ہوتی ہے تو اکثر حقیقت ِ حال کو سمجھا نہیں جاتا۔ ولسن سنٹر کی رپورٹ پاکستان بھر میں درجنوں ماہرین اور افسران کے انٹرویوز پر مشتمل ہے، اس کا مطالبہ ہے کہ ریکارڈ درست رکھا جائے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ عوامی تاثر کے برعکس حالیہ برسوں میں تعلیم پر اخراجات میں مُعتد بہ اضافہ ہوا ہے اور اب یہ دفاعی بجٹ کے قریب تر ہے۔ اس ادارے کی اسکالر نادیہ ناویوالا نے رپورٹ مرتب کی ہے اور کہا ہے کہ قومی اور بیرونی ذرائع سے تعلیم پر جو رقم خرچ ہورہی ہے، وہ ضائع ہورہی ہے اور منفی نتائج کی حامل ہے، لہٰذا اب زور تعداد (Numbers) پر نہیں بلکہ معیار (Quality) پر ہونا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اصل مسئلہ وہ بچے نہیں جو اسکول نہیں جاپاتے، بلکہ وہ بچے ہیں جو اسکول جاتے ہیں اور ایسے بچوں کی تعداد ایک کروڑ ستّر لاکھ ہے اور ان بچوں میں سے اکثر کئی سال اسکول میں گزارنے کے بعد ایک فقرہ بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ بچوں میں تعلیمی مواد کی تفہیم پیدا کرنا ضروری ہے اور نصاب کو بچوں کی سطح کے مطابق بنانا لازم ہے۔
تعلیم کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مادری زبان میں تعلیم دینا ناگزیر ہے، اعلیٰ تعلیم کو کثیرُ اللِّسان (Multilingual) ہونا چاہیے، مگر یہ حقیقت عیاں ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم طلبہ کی اکثریت کو نصاب سے کاٹ دیتا ہے اور طلبہ کی ذہانت اُن کے کام نہیں آتی، کیوںکہ طلبہ اور اساتذہ انگریزی میں کماحقّہٗ اظہارِ خیال پر قدرت نہیں رکھتے، اس لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کے میدان میں اِدھر اُدھر سے تحقیقی مواد چرانے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزی سائنس کی زبان ہے، لیکن اگر طلبہ کو مقامی زبان میں اظہار کے مواقع دستیاب ہوں گے تو وہ تحقیق وتخلیق کے دائروں میں بہتر نتائج پیدا کرسکتے ہیں، اس حوالے سے برٹش کونسل کے ایک سروے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، سروے کے مطابق پنجاب کے 94فی صد انگلش میڈیم اسکولوں میں اساتذہ انگریزی نہیں بولتے، (ڈان، کراچی 16جولائی 2019ء)‘‘۔ مزید تفصیل جاننا ہو تو جناب شاہنواز فاروقی کا کالم آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’اساتذہ کسی بھی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اچھی درس گاہ خوبصورت، آراستہ اور ائرکنڈیشنڈ عمارات کا نام نہیں ہے، بلکہ اچھی درس گاہ وہ ہے جہاں قابل اساتذہ موجود ہوں۔ سندھ کے وزیرِ تعلیم نے اسمبلی کے فلور پر کہا: صوبے کے ایک لاکھ چونتیس ہزار اساتذہ میں سے ایک لاکھ اساتذہ ایسے ہیں جنہیں استاد نہیں کہا جاسکتا، لیکن ہم حزبِ اختلاف کے خوف سے اُن اساتذہ کو چھیڑ بھی نہیں سکتے، باقی اساتذہ کو بھی گزارے کے لائق ہی سمجھیں، اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہ‘‘۔ پی ایچ ڈی مقالہ جات کے سرقے کی داستانیں یونیورسٹیوں کی فائلوں میں دفن ہیں اور بعض کے معاملات عدالتوں تک بھی پہنچتے رہے ہیں، باقی صوبوں کا حال اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس سمجھ لیجیے۔ چند سال پہلے پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے صوبے کے تمام سرکاری اسکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کا ڈول ڈالا اور اب چند دن پہلے اخبار میں خبر پڑھی کہ موجودہ وزیرِ اعلیٰ جنابِ عثمان بزدار دوبارہ تمام اسکولوں کو اردو میڈیم بنارہے ہیں، سو ہمارا نظامِ تعلیم ناتجربہ کار حکمرانوں کے تجربات کی آماج گاہ ہے، کسی نے سچ کہا ہے: بریں عقل ودانش بباید گریست، یعنی ایسی عقل ودانش کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے درمیان اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد تقریباً دو کروڑ اٹھائیس لاکھ ہے۔ چوںکہ پاکستان میں سرکاری طور پر مصدَّقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، اس لیے انہی دستیاب اعداد وشمار کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور یہ سروے پرائیویٹ این جی اوز کے ذریعے کرائے جاتے ہیں، جن کے ایجنڈے کی ترجیحِ اول اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنا ہوتا ہے، جہاں ریاستی سطح پر کی گئی مردم شماری اور ووٹرز لسٹ بھی متنازع ہو، وہاں کون سی چیز شکوک وشبہات سے بالا اور مصدَّقہ تسلیم کی جائے گی۔ مگر یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ ہمارے لبرل میڈیا، این جی اوز اور اُن کے مربّی مغربی حکومتوں کا دردِ سر پاکستان میں نظامِ تعلیم کی زبوں حالی اور بربادی نہیں ہے، شاید وہ چاہتے ہوں گے کہ پاکستانی قوم اسی طرح پسماندہ رہے اور وہ اپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اسے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتے رہیں۔
سو دینی مدارس وجامعات کو کوسنے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ ایک غریب قوم کے ٹیکسوں سے کھربوں، پدموں روپے خرچ کیے جانے کے بعد ہم نے عالمی سطح پر نرسری سے یونیورسٹی لیول تک کون سا نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے، لیکن ساری تگ وتاز کا مرکز ومحور دینی مدارس وجامعات ہیں۔ نیز میں بارہا متوجہ کرتا رہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان معاشی عدمِ استحکام کا شکار ہے، ہماری درآمدات وبرآمدات کا توازن درہم برہم ہے، سالانہ بجٹ میں ہمارے مجوّزہ آمدوخرچ کے میزانیے میں کافی بڑا خسارہ ہے، جبکہ ٹیکس کے مجوّزہ اہداف کا پورا ہونا بھی محلِّ نظر ہے۔ ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ دینی مدارس وجامعات میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں، کوئی ہمیں بتائے کہ پاکستان میں وہ کون سی گرانقدر تعلیمی ڈگری ہے کہ جس کے حامل کے لیے روزگار ریاست وحکومت کی طرف سے یقینی ہے۔ آرٹس، ہیومنٹیز اور سوشل سائنسز کے ڈگری ہولڈرز کو تو چھوڑیے، یہاں تو انجینئرز، ڈاکٹرز، آئی ٹی، ایم بی اے، اکائونٹنس اور سائنس وٹیکنالوجی کے متعدد شعبہ جات میں اعلیٰ اسناد وشہادات کے حاملین کے لیے ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ نوٹ: سر ٹیفکیٹ کو عربی اور اردو میں ’’سند‘‘ اور ڈگری کو عربی میں ’’شہادہ‘‘ کہتے ہیں۔
اسی طرح وہ بچے، جو کوڑے اور کچرے کے ڈھیروں پر روزی تلاش کرتے ہیں، پنکچر لگانے والوں اور موٹر مکینک کی دکانوں، چائے خانوں، قالین سازی کے کارخانوں، جوتے پالش کرنے والے، کھیتوں اور کھلیانوں، اینٹوں کے بھٹوں، گھریلو ملازمین، سڑکوں اور چوراہوں پر کنگھی، تسبیح اور دعائوں کے کتابچے بیچنے والے اور وہ بچے جنہیں معذور بناکر گداگری کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جابجا رُل رہے ہیں، مختلف علاقوں میں انہیں کاکا، لمڈا، چھوکرا، چھوٹو اورنہ جانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے، گالیوں اور حقارت آمیز القاب سے نوازا جاتا ہے، اُن کی فکر کسی کو لاحق نہیں ہے، حالاںکہ اوّلین ترجیح انہیں حاصل ہونی چاہیے۔
اب آتے ہیں مدارس کی طرف، دینی مدارس پر حکومت کے خزانے سے ایک پیسا بھی خرچ نہیں ہوتا، یہ معاشرے کے نادار طبقات کے بچوں کی کفالت کرتے ہیں، اُن کی خوراک، لباس، علاج اور تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، عصری اداروں کی طرح یہاں آوارگی کا ماحول نہیں ہوتا اور تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ آج کل بعض خوشحال لوگ بھی اپنی ترجیح پر اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلاتے ہیں۔ ان بچوں کو این جی اوز کی طرح کوئی گھروں سے ترغیب دے کر نہیں لاتا، یہ خود آتے ہیں یا ان کے والدین اپنی ترجیح کے مطابق انہیں دینی تعلیم اور بہتر تربیتی ماحول کے لیے لاتے ہیں۔ یہ ادارے کم از کم شرحِ خواندگی میں تو اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان میں سے ایک مناسب تعداد دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کرتی ہے۔
مذہبی تعلیم کے ادارے (Seminaries) امریکا اور مغرب میں بھی موجود ہیں، ہم نے لاس اینجلس کیلی فورنیا میں ایک مشہور Seminary کا دورہ بھی کیا ہے۔ امریکا اور مغرب میں مذہبی درس گاہوں میں پڑھنے والے بھی انجینئرز، ڈاکٹرز، اکائونٹنٹس، مختلف شعبوں کے سائنٹسٹ، ٹیکنالوجسٹ اور بزنس ایکسپرٹ نہیں بنتے، بلکہ ہیومنٹیز، بشریات سوشل سائنسز کے مختلف شعبوں میں تخصُّصات (Specialisations) کرتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں فیشن کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ دینی طلبہ انجینئر بنیں، ڈاکٹر بنیں، سائنٹسٹ بنیں، دفاعی سروسز میں جائیں وغیرہ وغیرہ، کیا میڈیا پرسنز جو اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر ہمیں یہ بھاشن دیتے ہیں، وہ ہرشعبے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں فیکلٹی کا تعیُّن میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سے ہوجاتا ہے، نہ ڈاکٹر تمام شعبوں کا ایکسپرٹ ہوتا ہے اور نہ انجینئر سارے شعبوں کا ایکسپرٹ ہوتا ہے، یہی صورتِ حال آئی ٹی، بزنس ایڈمنسٹریشن، اکائونٹس اور سائنسز کے مختلف شعبہ جات کی ہے۔ پس جن شعبوں میں دینی طلبہ آگے چل کر ماسٹریا بی ایس یا تخصُّصات کرسکتے ہیں، وہ آرٹس، ہیومنٹیز، قانون، لسانیات، معاشیات اور سوشل سائنسز کے مختلف شعبہ جات ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ دینی مدارس وجامعات میں طلبہ وطالبات کی تعداد بحیثیت ِ مجموعی قومی تعلیمی نیٹ ورک کے تین فی صد سے زائد نہیں ہے، لیکن ہمارے قومی اور بین الاقوامی ہمدردوں کی تمام تر توجہات اور تنقیدات کا مرکز یہی دینی ادارے ہیں۔
(جاری ہے)