آزادیٔ اظہار صرف اپنے لیے

288

معاشرے کا ہر فرد اور ہر طبقہ آزادیٔ اظہار کو ’’اہم‘‘ اور ’’مقدس‘‘ قرار دیتا ہے۔ مگر ہر فرد اور ہر طبقے کو آزادیٔ اظہار صرف اپنے لیے درکار ہے۔ ہمیں دوسرے کی آزادی اظہار زہر لگتی ہے اور ہمارا بس چلے تو ہم دوسرے کی آزادیٔ اظہار سے بچنے کے لیے اس کی زبان کاٹ ڈالیں۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی آزادیٔ اظہار کا یہ عالم تھا کہ الطاف حسین عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کے نام بگاڑا کرتے تھے۔ وہ میاں طفیل محمد جیسی محترم شخصیت کو ’’طفیلا‘‘ اور پروفیسر غفور احمد جیسی مہذب شخصیت کو ’’غفورا‘‘ کہا کرتے تھے اور مولانا نورانی جیسی مکرم شخصیت کے پان کھانے کی نقل اُتارا کرتے تھے۔ مگر اپنے حوالے سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم دونوں اتنے حساس تھے کہ 30 برس تک کراچی کے اخبارات و رسائل میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر ’’مہذب تنقید‘‘ کا ایک لفظ شائع نہ ہوسکا۔ الطاف حسین اور الطاف حسین کے خلاف تنقیدی رائے صرف روزنامہ جسارت میں شائع ہوتی تھی۔ ہم نے 1990ء میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر تنقید کا آغاز کیا تو ہر تیسرے چوتھے دن ہمیں ایک آدھ دھمکی مل ہی جاتی تھی۔ میاں نواز شریف نہ الطاف حسین ہیں اور نہ نواز لیگ ایم کیو ایم ہے مگر آزادیٔ اظہار میاں نواز شریف اور نواز لیگ کو بھی زہر لگتی ہے۔ میاں نواز شریف کہا کرتے تھے کہ میرے بال اخبارات کے مطالعے کی وجہ سے سفید ہوئے ہیں۔ انہوں نے دی نیوز میں ایک نظم کے حوالے سے ملیحہ لودھی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرادیا تھا۔ بیچارے میاں نواز شریف نے کبھی جسارت پر تو حملہ نہیں کیا مگر اردو نیوز سعودی عرب کا کثیر الاشاعت اخبار تھا، چناں چہ اس میں میاں نواز شریف کے خلاف ہمارا کالم شائع ہوتا تھا تو نواز لیگ میں زلزلہ آجاتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ میاں نواز شریف کے اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات مشاہد حسین سید نے ہمارا کالم بند کرادیا۔ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کی اشاعت کم ہے مگر جنرل پرویز اور ان کے حواریوں کے لیے جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کی اشاعت بھی بہت ہوگئی۔ اس وقت ہم پی ٹی وی کے شعبہ خبر سے بھی وابستہ تھے۔ جنرل پرویز کے حواریوں نے کسی طرح سراغ لگا لیا کہ ہم پی ٹی وی میں بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ہمیں پیشکش ہوئی کہ آپ کو جتنے پیسے جسارت سے ملتے ہیں وہ پی ٹی وی سے لے لیں مگر جسارت میں لکھنا چھوڑ دیں۔ ہم نے انکار کیا تو جنرل پرویز کے سیکرٹری اطلاعات انور محمود نے پی ٹی وی کراچی کے سینئر نیوز ایڈیٹر منور مرزا سے کہا کہ شاہنواز فاروقی تو بھارت کا ایجنٹ ہے، وہ صدر جنرل پرویز کے خلاف لکھتا ہے۔ چناں چہ ہماری پی ٹی وی کی ’’Job‘‘ ختم ہوگئی۔
یہ تو سیاست دانوں اور حکمرانوں کا قصہ ہے۔ اب ’’اہل صحافت‘‘ کا ’’ذکر خیر‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ اس سال میلادالنبیؐ پر روزنامہ جنگ کراچی میں جیو کا ایک اشتہار شائع ہوا۔ اشتہار کی ’’کاپی‘‘ کا مرکزی نعرہ یہ تھا۔ ’’عشق رسولؐ میں جیو‘‘ ہم نے اس نعرے کے حوالے سے ایک کالم لکھا اور کالم میں عرض کیا کہ عشق رسولؐ میں جیو کا نعرہ بڑا زبردست ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ جیو کی اسکرین پر عشق رسولؐ کا ذکر خیر صرف میلادالنبی کے دن ہوتا ہے اور باقی دنوں میں جیو سے جو مواد نشر ہوتا ہے اس میں کہیں عشق رسولؐ نظر نہیں آتا۔ اس ’’تبصرے‘‘ میں صرف ایک ’’تجزیہ‘‘ موجود ہے جس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی۔ مگر حکمرانوں سے اپنے لیے آزادیٔ اظہار کا حق مانگنے والے روزنامہ جنگ کے ذمے داروں نے مذکورہ بالا کالم سے نہ اتفاق کیا نہ اختلاف کیا۔ انہوں نے جسارت کو قانونی نوٹس بھجوادیا۔ دانش ورانہ بحث اور مکالمہ معاشروں کے لیے ’’ضروری‘‘ بھی ہے اور ’’فطری‘‘ بھی مگر جنگ کے نوٹس سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ جنگ کو دانش ورانہ بحث اور مکالمے سے دلچسپی ہے اور نہ وہ اپنے سوا کسی اور کے لیے آزادیٔ اظہار کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ حالاں کہ جنگ سے کہا گیا کہ جسارت ان کے موقف کو بھرپور انداز میں شائع کرے گا۔ صحافت کے ضابطہ اخلاق اور روایت میں یہ بات شامل ہے کہ آپ کے موقف پر متعلقہ فرد یا ادارے کا کوئی ردِعمل آئے گا تو آپ اسے بھی مناسب جگہ دیں گے اور قارئین کے سامنے تصویر کے دونوں رُخ آنے دیں گے۔ ہمیں جنگ کی صحافت سے ہزار اختلاف ہیں مگر جب میاں نواز شریف نے ملیحہ لودھی پر غداری کا مقدمہ کردیا تھا تو ہم نے انہی کالموں میں جنگ اور دی نیوز کی آزادی اظہار کے حق کا بھرپور دفاع کیا تھا۔ یہ جنگ پر کوئی احسان نہیں تھا۔ اصول یہ ہے کہ بات کا جواب بات سے اور دلیل کا جواب دلیل سے دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بات کے جواب میں لات چلائی جاتی ہے اور دلیل کا جواب مقدمے، اس کی دھمکی، معاشی یا جانی نقصان سے دیا جاتا ہے۔ اس ’’کلچر‘‘ سے معاشرے کا کوئی طبقہ پاک نہیں۔ آزادیٔ اظہار کے گیت گانے والے بھی نہیں۔
چند ہفتے پہلے ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے حوالے سے ایک کالم تحریر کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا۔ ’’شریف خاندان کی بے چہرگی۔ اس کی اپنی تاریخ کے آئینے میں‘‘ اس کالم میں معروف صحافی مجیب الرحمن شامی کا ذکر بھی چند فقروں میں ہوا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسن احمد نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ میاں صاحب نے شامی صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ قاضی صاحب نے نواز شریف سے کہا کہ اب شامی صاحب اتنے برے بھی نہیں۔ یہ سن کر میاں صاحب نے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ شامی کو نہیں جانتے اسے پیسے ملنے میں دیر ہوجاتی ہے تو وہ فون کرکرکے میرا جینا حرام کردیتا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے ہم اس بیان کے ’’خالق‘‘ نہیں ہم صرف اس بیان کے ’’راوی‘‘ ہیں۔ مگر 15 اگست 2019ء کی سہ پہر کو جب قوم بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منارہی تھی ہمیں موبائل سے منصورہ لاہور سے کسی فرمان صاحب کا فون موصول ہوا۔ اس وقت ہم لینڈ لائن پر اپنے ایک دوست سے گفتگو کررہے تھے۔ فرمان صاحب نے کہا کہ مجیب الرحمن شامی صاحب آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کا فون نمبر انہیں دے دوں۔ ہم فرمان صاحب سے آگاہ نہیں مگر منصورہ لاہور کے حوالے کی وجہ سے ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے پاس ہمارا فون نمبر ہے تو بیشک آپ شامی صاحب کو ہمارا نمبر دے دیں مگر ہم شامی صاحب سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ بہرحال کچھ دیر بعد شامی صاحب کا فون آیا، چوں کہ ان کا نمبر Un Known تھا اس لیے ہم نے فون اٹھالیا۔ پتا چلا دوسری طرف شامی صاحب موجود ہیں، اب ہمارے لیے فون بند کرنا مناسب نہیں تھا۔ چناں چہ ہم نے کہا فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے کالم میں مجھ پر بہتان باندھ دیا اور میرے بارے میں ایک ایسی بات کہہ دی جو ہوئی ہی نہیں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ آپ نے میری پگڑی اچھال دی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمیں نہ کسی پر بہتان لگانے کا شوق ہے نہ ہمیں کسی کی پگڑی اچھالنے سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہمیں صرف اپنے مذہب، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنی اقدار اور اپنے معاشرے کے دفاع سے دلچسپی ہے۔ چناں چہ ہم نے آپ کے بارے میں جو بات کوٹ کی ہے اس کا تناظر بھی ’’اجتماعی‘‘ ہے۔ اتفاق سے بات بھی ہماری نہیں ہے۔ ہم نے قاضی صاحب کو ’’کوٹ‘‘ کیا ہے۔ کہنے لگے کہ قاضی صاحب نے تو کبھی مجھ سے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ ہم نے عرض کیا کہ اس کے ذمے دار ہم نہیں۔ البتہ عمومی اور صحافتی اخلاق کا تقاضا یہ ضرور ہے کہ آپ کا ہمارے کالم کے بارے میں جو بھی موقف ہے آپ ہمیں لکھ بھیجیں ہم اسے جوں کا توں اپنے کالم میں نقل کردیں گے۔ کہنے لگے کہ نہیں آپ کو اپنے کہے کی تردید کرنی ہوگی ورنہ میں آپ کے خلاف عدالتی و قانونی چارہ جوئی کروں گا۔ یہ ایک دھمکی تھی اور اس کے جواب میں ہم بھی دوچار دھمکیاں تو دے ہی سکتے تھے مگر ہم نے عرض کیا کہ آپ عدالت جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں۔ گفتگو کے دوران شامی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ضروری نہیں کہ قاضی صاحب نے غلط بیانی کی ہو یا آپ نے جھوٹ کہا ہو یہ بھی تو ممکن ہے کہ قاضی صاحب نے کسی اور مجیب الرحمن شامی کا ذکر کیا ہو۔ ہم نے شامی صاحب کو بتایا کہ جس وقت قاضی صاحب نے آپ کا ذکر کیا اس وقت آپ ہی سے متعلق گفتگو ہورہی تھی، چناں چہ ذکر تو آپ ہی کا تھا۔ ویسے بھی ملک میں دو چار مجیب الرحمن شامی تو ہیں نہیں۔ شامی صاحب کہنے لگے کہ قاضی صاحب کا تو انتقال ہوگیا۔ ہم نے کہا کہ بالکل مگر راوی ثقہ ہے اس نے اپنی 29 سالہ صحافتی زندگی میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں لکھا اور وہ اپنے لکھے کے بارے میں حلفیہ بیان دے سکتا ہے۔ البتہ اگر آپ راوی کو جھوٹا قرار دینا چاہیں تو آپ کی مرضی۔ یہاں میں آپ کو یہ بتادوں کہ اگر آپ اپنے موقف میں مجھے دروغ گو بھی کہیں گے تو میں بلاخوف و خطر آپ کا موقف اپنے کالم میں شائع کردوں گا کیوں کہ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کو معلوم ہے کہ میں کون ہوں۔
مگر شامی صاحب مکالمہ کرنے یا اپنا موقف بیان کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہوئے۔ اس پر ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ کو قاضی صاحب کے بیان یا ہماری روایت پر اعتبار نہیں تو ان شا اللہ آئندہ ہم آپ کے بارے میں شائع شدہ کتابوں کو کوٹ کیا کریں گے۔ خیر سے اس سلسلے میں بھی ہمارے پاس کافی مواد موجود ہے۔ یہاں شامی صاحب کی 22 منٹ طویل گفتگو اختتام پزیر ہوگئی۔ شامی صاحب خاموش ہوئے تو ہمیں خیال آیا کہ ہمارے معاشرے کے موثر طبقات اپنے لیے تو آزادیٔ اظہار کے طلب گار ہوتے ہیں مگر جب یہی آزادیٔ اظہار ان کے حوالے سے بروئے کار آتی ہے تو وہ آزادای اظہار کو دبانے، کچلنے اور اس کا گلہ دبا دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کوئی بھی بات کا جواب بات سے اور دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دیتا۔ ہر کوئی آزادیٔ اظہار کے علمبرداروں کو دھمکیاں دینے پر اتر آتا ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں ہی کو نہیں ’’Media Tycoons‘‘ اور کامل صحافیوں کو بھی آزادیٔ اظہار اور مکالمہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔