کیا جنگ ناگزیر ہے؟

238

جنگ ایک نارمل معاشرے کا مطلوب ومقصود کبھی نہیں ہوتی کیوںکہ یہ شروع تو ہوجاتی ہے مگر اس کے خاتمے کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا۔ یہ ایک طوفان ہوتا ہے جو اپنے پیچھے آہیں، سسکیاں، درناک کہانیاں، بھیانک مناظر اور تلخ وترش یادیں چھوڑ جاتا ہے مگر اس کا کیجیے کہ کبھی یہ خود کش اور خود سوز عمل نوشتہ ٔ دیوار بن جاتا ہے اور دیوار پر کندہ اس تحریر سے نظریں چرانے کا مطلب بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوکر رہ جاتا ہے۔ بھارت کی سخت گیر سوچ کے مگرمچھ نے اکہتر برس تک کمزور معاہدوں کی پاسدار ی کی سوچ کے تحت، مروت میں یا کسی اندرونی وبیرونی ردعمل کے خوف سے کشمیر کے شکار کو جبڑوں میں دبائے رکھا تھا آخر کار اسے نگل لیا گیا۔ پاکستان اکہتر برس تک مگرمچھ کے جبڑے کمزور پڑنے کی جس موہوم امید پر دن گزار رہا تھا اس کے ساتھ ہی وہ امید بھی دم توڑ گئی۔ یوں کشمیر اور پاکستان دونوں اب اپنے مستقبل اور آزادی کے حوالے سے اب یا کبھی نہیں کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اس وقت کشمیر میں بھارت کی سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں جونہی یہ بحال ہوئیں بھارت اپنے اکہتر سالہ انتظار کے سارے بدلے پہلے ہلے میں چکانے کی راہ اختیا ر کرے گا۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر بھارت نے پانچ اگست کو اپنے جمہوری چہرے پر آمریت اور اپنے سیکولر چہرے پر مذہبی تعصب کی کالک ملنا قبول وگوارا کیا۔ وہ کالک یہ ہے کہ آج سلامتی کونسل سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک ٹرمپ سے اردوان تک، مقامی اخبارات سے عالمی ذرائع ابلاغ تک ہر کوئی ہر جگہ بھارت کے حالیہ یک طرفہ اقدامات اور کشمیر کی حالت زار کا تذکرہ ہورہا ہے۔ یہی نہیں خود بھارت کے اندر اس کی مصنوعی ہی سہی جمہوری اور سیکولر شناخت پر یقین رکھنے والے سیاست دان، دانشور کشمیر میں بھارت کے دست وبازو بنے رہنے اور اس کے قبضے کی ’’چتا‘‘ کو ندھوں پر اُٹھائے پھرنے والے لوگ منقازیر پا ہیں۔
مودی کے اقدام نے بھارت کی جمہوریت، سیکولرازم، پلورل ازم سمیت ہر دعوے اور شناخت کے آگے سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بہت سے لوگ کشمیر کی محبت میں نہیں بھارت کی شناخت چھن جانے کا ماتم کر رہے ہیں۔ پاکستان کا وزیر اعظم ہر دوسرے ٹویٹ اور تقریب میں اسے ہٹلر جیسے عالمی ناپسندیدہ کردار سے تشبیہ دے رہا ہے۔ بھارت کے حکمران ٹولے نے یہ سیاہی یوں بے سبب اپنے چہرے پر نہیں ملی بلکہ اس کے پیچھے مقاصد اور خواہشات کا ایک انبار ہے۔ ان میں سب سے اہم مقصد ریاست کی آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اس کا مجموعی کردار اور شناخت تبدیل کرنا ہے تاکہ پھر یہ ایک اصولی جنگ کے بجائے دو آبادیوں کے درمیان لڑائی بن کر رہ جائے۔ شمالی آئر لینڈ میں برطانیہ یہی حکمت عملی اختیار کرکے کیتھولک آبادی کی خواہشات کو بے مقصد بنا چکا ہے اور اس کی بدترین شکل فلسطین ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہو گی اگلے چند برسوں میں اس مقصد کی جانب اس قدر پیش رفت کی جا سکے کہ وقت کے پہیے کو دوبارہ اُلٹا گھمانا ممکن نہ رہے۔ بھارت میں سیاسی تبدیلی بھی رونما ہو تو معاملہ اس قدر آگے نکل چکا ہو کہ واپسی کا تصور بھی محال ہو۔ یہ ہوگیا تو پاکستان کے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ کشمیر کی زمین تو باقی رہے گی مگر اس پر سبز پرچم لہرانے والے اور حریت کے گیت گانے اور خواب دیکھنے والے اپنی بقا کی جنگ سے دوچار ہوں گے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان کو اپنا وہ کردار ادا کرنا ہے کہ جو کشمیریوں کی تیس سالہ مزاحمت کے اسکرپٹ کا لازمی حصہ ہے۔ جس تحریک کا آغاز 1988میں ہوا تھا۔ لوہا کشمیریوں کو گرم کرنا تھا اور اس پر چوٹ پاکستان کو لگانا تھی۔ بعد میں چوٹ لگانے کو چٹکی کاٹنے تک محدود کر دیا گیا۔ چٹکی کاٹنے سے معمولی سی تکلیف تو دی جا سکتی ہے مگر کسی کو مضمحل اور بدحال نہیں کیا جا سکتا۔
آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ واحد آپشن بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو کشمیر میں بھارت کو اصل ہدف کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے دفاعی اقدامات سے بڑھ کر کوئی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند دن کی خاموشی کے بعد نریندر مودی اور عمران خان کو ٹیلی فون کیے ہیں اور حالات کو معمول پر لانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن بحال کروائے بغیر حالات معمول پر لانے پر آمادہ ہوگیا تو یہ ایک سرینڈر ہوگا۔ بھارتی آئین کی دفعات بھارت کا معاملہ سہی مگر کشمیر کو خصوصی شناخت عطا کرنے والی ان دفعات کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے بھارت نے پاکستان کے موقف کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھا ہے۔ پانچ اگست کی صورت حال بحال ہونے کے بعد بھی حالات کا پرنالہ وہیں رہے گا کیوںکہ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے۔ یہ پوزیشن بحال ہوئے بغیر تو نارملائزیشن کا تصور خود کشی کے مترداف ہوگا۔ بھارت اس پر آماد ہ نہیں ہوتا تو پھر ایک جنگ ناگزیر ہوگی۔ بھارت کی بے لگام خواہشات کے آگے آج بند نہ باندھا گیا تو یہ طوفان بہت سے دیواریں اور حصار گراتا گزر جائے گا۔