نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کو بھارتی ہونے پر فخر نہیں رہا

210

دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر پر آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن مقبوضہ وادی میں موجود کشمیری کس حال میں ہیں کسی کو خبر نہیں۔ بھارتی قابض فوج کے کشمیر میں لگے کرفیو کو 19روز بیت گئے۔ جنت نظیروادی کو قید خانہ بنے 19واں روز ہے اور مقبوضہ وادی میں کاروبار بند۔ گھر بند۔ اسکول کالجز اور اسپتال بند ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور فون بھی بندش کا شکار ہیں بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں پر زندگی تنگ کردی۔ کشمیری کس حال میں ہیں؟ گھروں میں بچوں کا کیا حال ہے؟ بزرگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کسی کے علم میں کچھ نہیں اس ظلم پر اب تو بھارت کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین بھی کشمیریوں کے حق میں بول پڑے ہیں کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر تنازع کا غیر جمہوری حل نہیں ہوسکتا بھارتی شہری ہونے کے ناتے مقبوضہ کشمیر سے متعلق حکومتی فیصلے پر بالکل فخر نہیں۔ بھارت اپنے ہی فیصلوں سے دنیا میں مقبولیت کھو رہا ہے۔ امرتیا سین نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ملنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا چاہیے تھا، یہ کشمیریوں کی زمین ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سیاستدانوں پر پابندیاں لگا کر اور جیل میں ڈال کر آپ جمہوریت کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، بھارت سرکار اگر اب اپنے لوگوں کی بھی نہیں سن رہی تو اسے جلد ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ کرفیو کے باوجود کشمیری سڑکوں پر نکلنے کو بے چین ہیں‘ بس کچھ انتظار ہے کشمیر سے اٹھنے والے نئے طوفان کا۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے اور ہر گھر کے سامنے ایک فوجی کھڑا ہے۔ بھارتی فوج نے 4 ہزار سے زائد لوگوں کو جیلوں میں منتقل کر دیا ہے پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنا ہمارے لیے حیران کن نہیں تھا۔ بھارت معاملے کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے لیے پلوامہ 2 کرنا چاہ رہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل اور میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے مودی حکومت اپنے مکروہ اقدامات سے دنیا کو گمراہ کر رہی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں عارضی حراستی مراکز قائم کیے گئے ہیں اور نسل کشی کا آغاز ہو چکا ہے، بھارت مقبوضہ وادی میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اگر کوئی محدود جنگ ہوئی تو وہ محدود نہیں رہے گی بلکہ غیر محدود جنگ نیو کلیئر ونچر ہو گی اور تابکاری اثرات سے ڈھائی ارب لوگ متاثر ہوں گے اور اس کے پوری دنیا پر بھی اثرات ہوں گے۔ خطے سے بہت بڑی تعداد میں مہاجرین یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کا رخ کریں گے، پوری دنیا میں کساد بازاری آئے گی مقبوضہ کشمیر ایک بین الاقوامی معاملہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، مقبوضہ کشمیر کی خبریں جو پہنچ رہی ہیں اس سے ابھرنے والی تصویر بھیانک ہے سلامتی کونسل کا اجلاس ایک اہم پیش رفت ہے جو نکتہ آغاز ہے اور سلامتی کونسل سے مکمل رابطے میں رہیں گے کیونکہ آنے والے دن مزید خراب ہو سکتے ہیں اس مسئلے کا نتیجہ نکلنا چاہیے اور تمام مغربی ممالک مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش ہیں جبکہ مغربی ممالک کی تنظیموں کا دہرا معیار ہے، 1989 میں بھارتی قبضے کے خلاف وادی میں ووٹ کے بجائے بلٹ سامنے آئی اور ایک تحریک شروع ہوئی دنیا نے اسے مسلح جدوجہد کا نام دیا اس دوران تشدد کے بدترین واقعات ہوئے محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش تین لاکھ افراد مرد، خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت شہید‘ زخمی اور معذور ہوئے ہیں سیکڑوں کی تعداد میں اجتماعی قبریں دریافت کی جاچکی ہیں اور انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے اندازے کے مطابق مقبوضہ وادی میں 30ہزار بچے یتیم اور ہزاروں خواتین کے شوہر شہید کر دیے گئے اور سیکڑوں لاپتا بھی ہیں اور ان کی موت کی تصدیق نہیں ہوسکی، مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کی بے حرمتی اور لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔
اگست میں مودی سرکار نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے نکال کر مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ ساتھ ہی مسلم اکثریتی خطے کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کردیا گیا جس میں ایک علاقہ لداخ ہے اور کشمیر کو جموں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اس فیصلے سے گھنٹوں پہلے مقبوضہ وادی میں خطرناک کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت ہوئی تھی بھارت نے کشمیر کا دنیا سے رابطہ ختم کردیا تھا آرٹیکل 35 اے کسی بھی قسم کی آبادیاتی تبدیلی سے روکتا تھا کیونکہ یہ غیر کشمیریوں کو مقبوضہ وادی میں زمین خریدنے سے روکتا ہے اس اہم چیز کے ختم ہونے کی صورت میں کشمیریوں اور بھارت کے درمیان انصاف کے لیے ایک نئی نفسیاتی جنگ ہوگی اور کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے عین ممکن ہے بھارت کی جانب سے بڑے پیمانے پر قتل غارت کی جائے۔ آرٹیکل 35اے کو ہٹانے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کشمیر کی ہیئت کو بدل دے گا 2011 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر کی سوا کروڑ کی آبادی کا 68فی صد مسلمان ہے اب بھارت کشمیر میں ہندو آبادی بڑھائے گا ترقی کے نام پر کیے جانے والے بھارتی سرکار کا فیصلہ کشمیریوں کے لیے ایک نیا عذاب بن کر آیا ہے، ہندو انتہاء پسند اور مسلح تنظیم آر ایس ایس کا کافی عرصے سے تقاضا تھا۔
بھارتی جنتا پارٹی آر ایس ایس کی ہی سیاسی اولاد ہے آج سے تقریباً پندرہ سولہ سال قبل کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آر ایس ایس نے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق صاف دِکھتا تھا کہ ہندو انتہاء پسند مقبوضہ وادی کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور ہندو انتہاء پسند تنظیم وشوا ہندو پرشاد نے ایک اور قرارداد پیش کی جس میں جموں اور کشمیر کے پانچ ہندو اکثریت اضلاع کو علیحدہ ریاست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ کشمیر کی وادی میں دریائے جہلم کا شمال مشرقی علاقہ ہندوؤں کو بسانے کے لیے اور لداخ کو یونین ٹیریٹریز کی حیثیت دی جائے۔ اب ان تقاضوں کو قانون کی شکل دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔ لداخ پر مرکز میں موجود بی جے پی حکومت کرے گی اس انتظامیہ کے تحت مسلمان ویسے ہی غیر محفوظ محسوس کریں گے جیسے بھارت کے دیگر حصوں میں کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ مسلمانوں اور بدھ متوں کے درمیان موجود توازن کو ہندوں کو زمینیں خریدنے کی اجازت دے کر تبدیل کیا جاسکے گا لیکن یہ کام بھارت کے لیے ایک خواب ہی رہے گا۔