مختصر پر اثر

189

٭ میں ثالثی پہ زور دے کے
کچھ اور ہے جسے چھپا رہا ہوں
٭ جس طرح ہماری قیادت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کو صدائیں لگارہی ہے اس پر وہ نواب صاحب یاد آجاتے ہیں جو اپنی خادمائوں کے ساتھ عیش کررہے تھے کہ کہیں سے سانپ نکل آیا۔ تمام خادمائیں پلنگ پر چڑھ کر شور مچانے لگیں ’’ارے کسی مرد کو بلائو، ارے کسی مرد کو بلائو‘‘۔ نواب صاحب بھی ان کے ہمراہ چڑھ کر چلانے لگے ’’ارے کسی مرد کو بلائو‘‘۔ کسی نے نواب صاحب سے کہا ’’حضور آپ بھی تو مرد ہیں‘‘۔
عالمی برادری کو پکارتی ہماری قیادت کو بھی احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ حضور آپ بھی تو مرد ہیں۔
٭ 14اگست کو پرچم کشائی
اسلحے کی نمائش
جہازوں کی قلابازیاں
تیرا خدا یہاں نہیں ہے
جہاں ہزاروں مائوں بہنوں بیٹیوں نے
بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی ہے
لاکھوں شہید ہوچکے ہیں
ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں تڑپ رہے ہیں
پھر بھی وہ کرفیو توڑ کر
بھارتی فوجیوں کی گو لیوں کے مقابل سینہ سپر ہیں
تیرا خدا یہاں ہے
٭ بچپن میں کاغذ کی کشتیوں سے واسطہ تھا
ہوش سنبھالا تو ہر لمحے ڈالروں کے ٹینکوں کی چڑھائی کا سامنا رہا
یہ وہ ٹینک ہیں جن پر چڑھ کر جنگ حلال ہے
باقی ہر صورت میں جنگ خودکشی کے برابر ہے
٭ محبت کی علامت تاج محل نہیں مسجد نبوی ہے۔
٭ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ ڈیم نہ بن سکا
اک بابا سارے ملک کو چونا لگا گیا
٭ ہر جمعہ یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ نہ جانے اس جمعہ کو بھی ہمارے کشمیری بھائی نماز ادا کرسکیں گے یا نہیں۔ کرفیو اٹھایا جاتا ہے یا نہیں۔ مسلسل کرفیو کے باعث وہاں غذائی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ بیمار ادویات سے محروم ہیں۔ ابلاغ کے تمام ذرائع بند ہوچکے ہیں۔ ہماری حکومت نے ابھی تک ائر اسپیس بند نہیں کی۔ کلسٹر بموں کا جواب نہیں دیا۔ مکمل طور پر سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ ہر فورم پر جنگ کے امکان کو مسترد کیا جارہا ہے لیکن اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
٭ وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
٭ گنتی گننا آتی ہے؟
نہیں! ایک حادثے کے نتیجے میں میں گنتی گننا بھول گیا ہوں۔
کیا ہوگیا تھا؟
غلطی سے عمران خان کی وعدہ خلافیاں گننے بیٹھ گیا تھا۔
٭ پاکستان میں ہر طاقتور آدمی کا اپنا جج ہوتا ہے۔
٭ انصاف ایک دیوی ہے جس کے ایک ہاتھ میں ترازو اور دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے۔ اگر وہ ایک فریق کی حمایت میں آکر ترازو پھینک دے تو وہ انصاف کی دیوی نہیں بازاری طوائف ہے۔
٭ ترقی کی رفتار نصف کرکے غربت لاکر ہم خزانہ بھرنا چاہتے ہیں۔
٭ ڈالر نے ہنستے ہوئے، روپے کی طرف دیکھا اور کہا شرم سلیکٹڈ کو مگر نہیں آتی۔
٭ ایمبولنس بلائو، یہ صاحب بیہوش ہوگئے ہیں
آپ نے ان کے کان میں کیا کہا تھا؟
میں نے کہا تھا ’’عمران خان کی حکومت جانے میں چار سال باقی ہیں‘‘۔
٭ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
جی ایچ کیو سے ابھرتے ہوئے سلیکٹڈ کو ذرا دیکھ
٭ کسی کو کچھ خبر ہے چار سو سے زائد افراد کا قاتل رائو انوار اور عزیر بلوچ کہاں ہیں؟
٭ قومی ایکشن پلان، آپریشن ضرب عضب اور دیگر آپریشنوں کی کامیابی کا تو پتا نہیں لیکن آپریشن ردو بدل کی کامیابی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ ایک سال ہی گزرا ہے سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں ’’مزہ آیا‘‘۔