مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا مسلسل 22واں روز، کشمیری، مائوں بچوں، مریضوں، بوڑھوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟ دنیا میں امن اور سلامتی کے ضامن کہاں سوگئے ہیں؟ انہیں کیوں نظر نہیں آرہا، بھائیوں کے سامنے بہنوں کی ردا تار تار ہورہی ہے۔سیاسی قیادت موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات معطل ہیں اور مواصلات کا نظام مکمل پر معطل ہے، قابض انتظامیہ نے ٹیلی فون سروس بند کررکھی ہے اور ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ مواصلاتی نظام کی معطلی، مسلسل کرفیو اور سخت پابندیوں کے باعث لوگوں کو بچوں کے لیے دودھ، زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ حد تو یہ رہی کہ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ رہا جس کے باعث کشمیری مسلمان عید کی نماز اور سنت ابراہیمی ادا کرنے سے محروم رہے۔ کشمیر پر یہ نیا عذاب اس وقت سے نازل ہے جب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے کو ختم کیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدام پر وہاں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی چیخ اٹھا ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور ان کا موقف درست ہے نوبیل انعام یافتہ بھارتی معیشت داں ڈاکٹر امرتیا سین برملا کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کے بغیرمسئلہ کشمیرکا کوئی حل نہیں کرسکتا۔ وہ مانتے ہیں کہ کشمیرکشمیریوں کا ہے، کشمیری قیادت کو گرفتار، نظربند کرنے کی شدید مذمت بھی کر چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں آج واقعی ایک غیر معمولی صورت حال ہے، اس صورت حال کے بارے میں پارلیمنٹ کی ہر سیاسی جماعت حقیقی معنوں میں بے خبر تھی گزشتہ عام انتخابات کے بعد، حکومت سازی کے بعد کئی ماہ تک تو پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی تشکیل ہی نہیں پاسکی تھی اور تشکیل پاجانے کے بعد پانچ اگست تک پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی تو جامد تھی، حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملاقات نہ موثر رابطے، کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام، اگرچہ نہایت سنجیدہ اور باوقار سیاسی شخصیت ہیں، ان کا طرز سیاست روایتی سیاست دانوں جیسا کبھی نہیں رہا، غالباً یہ بات بھی حقیقت کے قریب رہی کہ انہیں کبھی کشمیر کاز کے لیے کسی جلوس ،جلسے، مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے اب تک گزرنے والے سربراہوں میں نواب زادہ نصرا للہ خان ایک ایسے سربراہ رہے، جنہیں ملک کی سیاست میں ایک نمایاں مقام اور بے پناہ احترام ملا، ملک کی ساری سیاسی قیادت ان کی سربراہی میں کام کرنے پر فخر محسوس کرتی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ہر سیاسی اتحاد میں وہ نمایاںطور پر شامل رہے، وزیر اعظم عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری جی ڈی اے میں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اے آرڈی میں ان کی قیادت میں کام کر چکے ہیں، ایسی صفت کی حامل دوسری شخصیت سردار عبدالقیوم خان کی تھی، آج ملک ان جیسی شخصیات سے محروم ہے یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ نواب زادہ نصراللہ خان حیات ہوتے، اور سردار قیوم بھی زندہ ہوتے تو کشمیر کمیٹی پورے ملک کی سیاست قیادت کو اپنے گرد جمع نہ کرلیتی، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ او آئی سی کے اجلاس کے لیے کاسابلانکا گئے، تو وہاں حریت لیڈر میر واعظ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ بتائیے کہ کیا چاہیے، ہماری جان بھی کشمیر کے لیے حاضر ہے۔
وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کوششوں سے او آئی سی میں کشمیر کانٹیکٹ گروپ تشکیل دیا گیا، آج یہ گروپ کہاں ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی بھی کہاں ہے؟ پارلیمانی کشمیر کمیٹی میں شامل کل ستائیس ارکان میں تحریک انصاف کے نامزد ارکان کے علاوہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے نامزد ارکان میں راجا پرویز اشرف، شیری رحمن، خرم دستگیر خان، روحیل اصغر، بیرسٹر محمد علی سیف، نواب زادہ افتخار احمد خان بابر بہت سینئر سیاسی رہنماء اور پارلیمنٹیرین ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کی تشہیر اس قدر کمزور ہے کہ قوم کو کشمیر کمیٹی کے تمام ارکان کے نام بھی معلوم نہیں ہیں۔ میڈیا کے اہم ترین حصے ٹی وی ٹاک شوز میں ان کی شرکت بھی اس لحاظ سے کمزور ہے۔ یو م آزادی کے موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر گئے، لیکن پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے ارکان ان کے ہمراہ نہیں تھے، کمیٹی کے ارکان ان کے ساتھ جاتے تو اہل پاکستان اور اقوام عالم کے لیے بہت اچھا پیغام ہوتا لیکن لگ رہا ہے کہ حکومت شاید کسی بھی سطح پر اس ایشو کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت کا ادراک نہیں رکھتی اگر آج ایک لمحے کے لیے رک کر جائزہ لیا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ بھارتی فوج اور حکام کشمیری لڑکیوں کے اغواء جیسے قبیح جرم میں ملوث ہے حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کی گواہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اب تک 300 سے زائد لڑکیوں کو گھروں سے اٹھایا جاچکا ہے وہاں کے لوگ جو ظلم پاکستان کے لیے برداشت کر رہے ہیں پاکستان کا بچہ بچہ بھی کشمیر کا قرض واپس نہیں کرسکتا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی نسل کشی کررہی ہے مقبوضہ وادی میں خوف پیدا کرنے کا حربہ بھی بہت زیادہ خوف ناک ہے کہ کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بھارتی فوج لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی چیخیں سنوا رہی ہے تاکہ دہشت اور خوف ماحول بنایا جائے، بھارتی فوج کشمیریوں کو بھوک سے مارنا چاہتی ہے جبکہ بقیہ بچ جانے والوں کی نسل کشی کا پلان بھی تیار ہے۔ بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ایک ریلی ہوئی ہے جس سے سکھ رہنما پرتاب سنگھ نے خطاب کیا اور کہا کہ سکھ برادری پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے کچھ بھی ہوا تو سکھ برادری سرحد پر سب سے پہلے جائے گی، سکھوں کو یہ حکم جاری کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کا ساتھ دیں بھارتی سکھ بھی کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، چاندنی چوک پر خالصتان کا جھنڈا لہرایا جائے گا۔ آج جو بھی سنگین حالات ہیں، ان کا جائزہ لینا، اور فیصلہ کرنا، عوام کو خطرات سے آگاہ کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے، حکومت خود بھی آگے آئے حکومت کا حال تو یہ ہے کہ مریم نواز کو گرفتار کرکھا ہے، بلاول مودی کو چیلنج کرتا ہے تو حکومتی ترجمان جواب دیتی ہیں کہ بلاول کشمیر کے پیچھے نہ چھپیں، اپنے والد کی کرپشن کا حساب دیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ایک سنجیدہ غور و فکر اور بحث ہونی چاہیے ہمیں اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ عالمی برادری ہمیں دبائے گی، ہمیں دبائو میں لائے گی، کشمیری عوام کے سیاسی حق کو اقوام متحدہ نے خود تسلیم کر رکھا ہے، سلامتی کونسل نے ابھی حال ہی میں اس پر اجلاس بلایا ہے یہ اہم کامیابی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کا ساتھ دینا ہر لحاظ سے اہل پاکستان کی ذمے داری ہے ہم اور ہماری پارلیمنٹ یہ ذمے داری کسی دوسرے پر منتقل نہیں کر سکتی، یہ بوجھ نہیں ہے بلکہ ہمارا فرض ہے جسے ہر قیمت پر نبھانا ہے۔