کراچی کے لیے لڑیں نہیں اس کا حق دلائیں

170

کراچی، بدھ سے پھر بارشیں شروع ہوگئیں۔ بارش اللہ کی رحمت ہوتی ہے مگر یہ شہریوں کے لیے اس لیے زحمت کا باعث ہوجاتی ہے کہ یہاں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام ہی نہیں ہے جبکہ شہر پہلے ہونے والی بارشوں کا پانی مختلف گلیوں، سڑکوں اور کھیل کے میدانوں میں جمع ہے۔ کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے والے بلدیاتی نظام کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے کر تباہ کردیا۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) بناکر حکومت نے صفائی ستھرائی کے کام کی ذمے داری اس ادارے کے حوالے کردی جو گزشتہ 5 سال سے آج تک اپنے دائرہ کار کو سمجھ تک نہیں سکا۔ جو کام کے ایم سی اور ضلعی بلدیاتی ادارے کیا کرتے تھے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی وہ کام پانچ سال گزرنے کے باوجود شروع تک نہیں کرسکا۔ اسے گھروں سے کچرا اٹھاکر گاریبج اسٹیشن اور پھر وہاں سے لینڈ فل سائٹ تک پہنچانا تھا۔ یہی نہیں اس ادارے کو اسپتالوں اور مختلف اداروں کا کچرا بھی اپنے سسٹم کے تحت اٹھاناتھا اور گلیوں، محلوں اور سڑکوں کی صفائی بھی کرنا تھی۔ مگر یہ ادارہ جس کا سالانہ بجٹ اربوں روپے ہے اس کا مرکزی دفتر ٹیپو سلطان روڈ پر ایک نجی رہائشی بنگلے میں قائم ہے اس کے دفتر کے آس پاس موجود کچرا، گندی اور غلاظت اس کا منہ چڑاتی ہے۔ یہ ادارہ 5 سال میں اپنا کوئی سسٹم تو کجا اس کے دائرے اختیار میں موجود تمام ذمے داریوں کو بھی نہیں سمجھ سکا۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے کام کی حدود پورا سندھ ہے مگر وہ کراچی کے صرف تین اضلاع شرقی، جنوبی، ملیر اور غربی میں صفائی ستھرائی کی ذمے داری حاصل کرسکاتھا ان میں ضلع غربی میں وہ ناکام رہا وہاں چائنا کی فرم کو دیا گیا ٹھیکا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایس ڈبلیو ایم بی کو چلانے کے لیے ایک ایسے افسر کو دوسری بار اس کا ایم ڈی مقرر کیا گیا ہے جس نے اپنی پوری ملازمت کے دوران کوئی غیر معمولی کام کرکے نہیں دکھایا تھا۔ عام خیال یہ ہے کہ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو ختم ہی کر دینا چاہیے، عدالت عظمیٰ پہلے ہی اس ادارے کی ناقص کارکردگی بلکہ اس کی موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ادارے کو بھی ٹھیکیداروں کے ذریعے چلانا تھا تو اسے علیحدہ حیثیت میں کیوں قائم کیا گیا؟۔ اس ادارے کے ایم ڈی اور دیگر کی عدم توجہ کے باعث اس کی اپنی ویب سایٹ تک بند ہوچکی مگر اسے بحال کرانے کا کسی کو کوئی خیال نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس ادارے کو قائم کرنے اور اسے چلانے میں ناکام ہوجانے والے عناصر کے خلاف مقدمات درج کرکے سخت کارروائی کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ کراچی میں اس قدر کندگی غلاظت کے ساتھ دیگر مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں حکومت گزشتہ 12 سال سے پیپلز پارٹی کی ہے جس کے سابق وزراء سمیت اہم شخصیات پر کرپشن کے الزامات ہیں ان الزامات پر پارٹی کے شریک چیئرمین اور دیگر اہم رہنما گرفتار بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی حکومتی ایوانوں اور اداروں کے بجائے قومی احتساب بیورو کے کاغذات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
کراچی کے مسئال کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ سسٹم سے جڑی سیاسی شخصیات اور سرکاری افسران نے اسے سونے کا انڈے دینے والی مرغی تو سمجھا ہوا ہے مگر اس ’’مرغی‘‘ کو زندھ رکھنے کے لیے اس کی دیکھ بھال اور ضروریات کا خیال نہیں رکھتے۔ ان کے پاس اس قدر ناجائز دولت ہے کہ یہ ضرورت پڑنے پر حکومت کے حامی اور سسٹم کو کنٹرول کرنے کے لیے انتخابات میں ناکام ہونے والوں کی خدمات بھی باآسانی حاصل کرلیا کرتے ہیں۔ دو تین روز قبل سے میئر وسیم اختر اور سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے درمیان جاری ’’لفظی جنگ‘‘ اسی بات کی عکاسی کررہی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ جو کچھ مذکورہ دونوں سیاسی شخصیات کررہی ہیں کیا اس سے کراچی صاف ہوجائے گا؟
کراچی سے صوبے اور ملک کا نظام چلانے کے لیے80فی صد آمدنی حاصل کی جاتی ہے مگر اسے واپس صرف 25 تا 35 فی صد دیا جاتا ہے۔ یہ کراچی اور اہل کراچی کے ساتھ زیادتی نہیں ظلم ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کراچی پر کسی بھی طرح ظلم کرنے والے ظالموں کو کسی بھی سطح کی حکومتی ذمے داریوں سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ کراچی کو اس کی حیثیت، وسعت اور ضرورت کے مطابق خصوصی طور پر ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے کراچی کو نہ صرف مخصوص وسیع فنڈز فراہم کیا جائے بلکہ اس مقصد کے لیے نئی قانون سازی کرنا بھی ضروری ہے۔ کراچی کو کراچی بنانے کے لیے یہاں کے مستقل اور عارضی رہنے والوں کے لیے بھی قانون سازی کرنا ضروری ہے۔ اس کام کے لیے کراچی کے رہنے والے سابق گورنر و لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر، برگیڈئر ریٹائرڈ ظہیر حیدر، سابق جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین اور جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد یا ان جیسے دیگر شخصیات کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یاد رکھیں کراچی میں عارضی بنیادوں یا ضرورت کے تحت رہنے والے دیگر شہروں کے مستقل باشندوں کی موجودگی بھی مسائل کی وجہ ہے۔ انہیں مستقل شہری بنانے کے لیے ان کو دہرے ڈومیسائل اور پی آر سی رکھنے پر پابندی عائد کی جائے یا ان سے کراچی میں رہنے کے عوض ٹیکس لیا جائے اور اس ٹیکس کی رقم کو صرف کراچی پر خرچ کیا جائے۔