بلاشبہ پاکستان کا جغرافیہ تو آزاد ہے مگر ہمارے حکمرانوں اور دیگر بالائی طبقات کے اذہان مقبوضہ ہیں۔ ان اذہان پر ابھی تک نوآبادتی فکر اور تجربہ مسلط ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک سرکاری زبان بھی انگریزی ہے اور ذریعہ تعلیم بھی انگریزی ہے۔ ہمارے فوجی اور سول حکمران آئین کے ترانے گاتے ہیں مگر انہیں یہ بات کبھی یاد نہیں آتی کہ ہمارا آئین اردو کو سرکاری زبان بنانے کی بات کرتا ہے۔ حکمران ملک کو قائد اعظم کے اصولوں کے تحت چلانے کی بھی بات کرتے ہیں مگر انہیں اردو کے سلسلے میں قائد اعظم کا یہ فرمان بھی یاد نہیں آتا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ سپریم کورٹ کو بھی اس سلسلے میں احکامات جاری کیے ہوئے عرصہ ہوگیا مگر مقبوضہ اذہان زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی مثال بنے ہوئے ہیں اور وہ قوم کے ذہن کو انگریزی کے تسلط سے آزاد کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ حالاں کہ انگریزی کے خلاف اور اردو کی حمایت میں دلائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
چند روز پیش تر انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں ڈاکٹر عائشہ صدیق کا ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک ایسی چینی طالبہ کا ذکر کیا ہے جو اس وقت امریکا کے ایک تحقیقی ادارے کی ڈائریکٹر ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کے بقول اس چینی لڑکی نے ڈاکٹر عائشہ کو بتایا کہ اس نے جب امریکا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس کو زبان کے حوالے سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی طالبہ نے اپنے ملک میں انگریزی ایک غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھی تھی مگر اس کے باوجود اسے امریکا کی یونیورسٹی کے کلاس روم میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی طالبہ کے بقول وہ کلاس میں ہونے والی بات چیت میں حصہ نہیں لے پاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کا ذہن انگریزی کو سمجھنے کی جدوجہد میں لگا رہتا تھا۔ چینی طالبہ کے بقول اس جدوجہد کے پانچ مراحل تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ سنی گئی انگریزی کا ترجمہ چینی زبان میں کرتی۔ دوسرے مرحلے میں وہ انگریزی زبان کے فقروں کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتی۔ تیسرے مرحلے میں وہ اپنی مادری زبان میں سنی اور سمجھی گئی بات کا جواب تشکیل دیتی۔ چوتھے مرحلے میں وہ اپنے جواب کا خاکہ بناتی اور پانچویں مرحلے میں وہ اپنے جواب کو انگریزی میں ڈھال کر اس کا ابلاغ کرتی۔ انگریزی کے سلسلے میں یہ ذہنی جدوجہد ہر اس طالب علم کا مقدر ہے جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔
اس ذہنی جدوجہد کو سرسری طور پر سمجھنے والا بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ انگریزی ہماری دس بارہ نسلوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو کھاچکی ہے۔ اس ’’الزام‘‘ کے درست ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم ڈیڑھ سو سال سے انگریزی پڑھ رہے ہیں مگر ہم نے ڈیڑھ سو سال میں نہ انگریزی کا کوئی بڑا شاعر پیدا کیا، نہ بڑا افسانہ نگار پیدا کیا، نہ بڑا ناول نگار پیدا کیا، نہ بڑا نقاد اور بڑا فلسفی پیدا کیا، نہ بڑا مفسر اور محدث پیدا کیا۔ یہاں تک ہم نے بڑے معاشیات دان، بڑے ماہرین عمرانیات اور بڑے سائنس دان بھی پیدا نہیں کیے ہیں۔ اس کے برعکس اردو نے گزشتہ تین سو سال میں بڑے شاعر بھی پیدا کیے ہیں، بڑے افسانہ نگاروں کو بھی جنم دیا ہے، بڑے ناول نگار بھی معاشرے کو دیے ہیں۔ مذہب کے دائرے میں اردو کے تخلیقی کارنامے غیر معمولی ہیں۔ اردو نے ڈیڑھ درجن سے زیادہ بڑی تفاسیر پیدا کی ہیں۔ اردو میں سیرت طیبہ پر شاندار کتب لکھی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو نے اپنے ’’آبائی علاقوں‘‘ ہی میں تخلیق کے دریا نہیں بہائے اس نے ان علاقوں میں بھی تخلیقی کارنامے انجام دیے ہیں جہاں کے لوگوں کی عظیم اکثریت کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ یہ صورتِ حال اسلام کی روایت کی یاد دلاتی ہے۔ اسلام اپنی تاریخ کے طویل سفر میں اپنے مراکز بدلتا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کا مرکز مکہ اور مدینہ تھا۔ بعدازاں اس کا مرکز بغداد اور شام بن گیا۔ مراکز کی تبدیلی کا یہ عمل جاری رہا۔ چناں چہ غرناطہ، ثمرقند و بخارا، دلّی اور یوپی اسلام کے مراکز بن کر اُبھرے۔ اسی طرح اردو کا مرکز کبھی دلّی اور یوپی تھا۔ مگر اب اردو کے بڑے مراکز بھارت میں بہار اور تلنگانہ اور پاکستان میں لاہور اور کراچی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کسی خاص علاقے کا مذہب نہیں اسی طرح اردو کا بھی کوئی خاص جغرافیہ نہیں۔ اسلام کی طرح جو اردو کو قبول کرلے اردو اسی کی ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو حقیقی معنوں میں ایک آفاقی، بین التہذیبی اور ثقافتی زبان ہے مگر حکمران طبقے کا مقبوضہ ذہن ان باتوں کا شعور ہی نہیں رکھتا۔
زبیدہ مصطفی ڈان کی کالم نگار ہیں۔ وہ ’’لبرل‘‘ بھی ہیں اور ’’انگلش میڈیم‘‘ بھی مگر انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں صاف کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام اس لیے ابتر سے ابتر ہوتا جارہا ہے کہ وہ ’’انگلش میڈیم‘‘ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ ذاتی تحقیق کے سلسلے میں ایک سوالنامہ لے کر ایک انگلش میڈیم اسکول پہنچیں۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ جب بچوں کو اردو میں سوالنامے کا جواب دینے کی آزادی مہیا کی گئی تو بہت سے بچوں نے انگریزی کے بجائے اردو کو ذریعہ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ نرسری کے بچوں سے انہوں نے ایک انگریزی نظم کے معنی پوچھے تو بچوں نے انگریزی میں اس کے معنی بتادیے۔ اس لیے کہ ان کے استاد نے انہیں نظم اچھی طرح پڑھائی ہوئی تھی۔ مگر جب انہوں نے نظم کے بجائے غیر نصابی امور پر بچوں سے انگریزی میں گفتگو کی تو اکثر بچے خاموش ہوگئے۔ کیوں کہ ان کی انگریزی کی استعداد بہت کم تھی۔ پھر اچانک انہوں نے اردو میں گفتگو شروع کی تو کلاس روم کی فضا گفتگو کے اعتبار سے بہتر ہوگئی۔ کلاس میں ایک بچے نے دعویٰ کیا کہ اسے الٰہ دین کی کہانی آتی ہے میں نے اسے کہانی سنانے کے لیے کہا مگر وہ انگریزی میں کہانی نہ سنا سکا۔ یکایک زبیدہ مصطفیٰ نے بچے سے کہا کہ وہ چاہے تو اردو میں کہانی سنا سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی بچہ اس طرح رواں ہوا جیسے گفتگو کا کوئی ڈیم ٹوٹ گیا ہو۔
فارسی دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کی شاعرانہ روایت اتنی عظیم ہے کہ خود عربی شاعری کی روایت اس سے آگے کچھ نہیں مگر جب عربوں نے ایران فتح کیا تو انہوں نے اہل فارس کو عجم یا گونگے کہہ کر پکارا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں کے پاس قرآن تھا اور عربی کو چوں کہ قرآن و حدیث کی زبان بننا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے عربی کو اتنی ترقی دے دی تھی کہ اس کے آگے دنیا کی ہر زبان ہیچ تھی۔ مگر عربوں نے عربی کی عظمت کی وجہ سے دوسری قوموں کو گونگا کہا۔ لیکن ہمارے حکمران طبقے نے اپنی مقبوضہ ذہنیت کے زیر اثر پوری قوم کو گونگا بنایا ہوا ہے۔ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم نہ انگریزی کو سمجھ پاتے ہیں، نہ اسے اپنے اندر جذب کرپاتے ہیں اور نہ اس میں وہ کوئی گہری بات سوچ پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ انگریزی میں کوئی ایسی بات بھی نہیں کہہ پاتے جو انہوں نے رٹی ہوئی نہ ہو، اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلبہ کی عظیم اکثریت انگریزی کی وجہ سے گونگی بھی ہے، بنجر بھی۔
زبان کی اہمیت مذہب، تہذیب، تخلیقی استعداد اور ماحول کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انگریزی نہ ہمارے مذہب کی زبان ہے، نہ ہماری تہذیب کی زبان ہے، نہ ہمارے ادب کی زبان ہے، نہ ہماری تاریخ کی زبان ہے، نہ ہمارے ماحول کی زبان ہے۔ انگریزی صرف ہمارے آقائوں کی زبان ہے، مگر ہمارے حکمران طبقے کو اپنے آقائوں سے اتنی محبت ہے کہ ان کی زبان کو انہوں نے 22 کروڑ آزاد انسانوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔ ساری دنیا خود کو غیر نوآبادیاتی بنانے یا De-Colonized کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر ہمارے حکمران انگریزی کو قومی زندگی پر مسلط کرکے اپنی قوم کو مسلسل غلامی کے تجربے سے ہم آہنگ کرنے اور ہم آہنگ رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ملک و قوم سے بے وفائی نہیں ملک و قوم سے غداری ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی زبان سے نفرت نہیں کی اس لیے کہ قرآن مجید نے زبانوں کو اللہ تعالیٰ کی نشانی قرار دیا ہے۔ ہمیں انگریزی سے بھی نفرت نہیں ہے مگر انگریزی کا نوآبادیاتی کردار ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم انگریزی کو صرف ایک اہم غیر ملکی زبان کی حیثیت سے سیکھیں۔ اسے اپنی تہذیب اور تاریخ بنائیں نہ اسے احساس کمتری اور احساس کمتری کے پیمانے میں ڈھالیں، نہ اسے طبقاتی کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں۔ بلاشبہ انگریزی ایک علمی زبان ہے اور ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ زبان سکھانی چاہیے تا کہ وہ اس زبان میں موجود علم سے استفادے کے قابل ہوسکے، مگر انگریزی کو ہماری قومی زندگی میں مرکزی اور محوری حیثیت حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ انگریزی کو ترقی کی زبان کہتے ہیں مگر جاپان ہو یا چین، کوریا ہو یا روس سب نے اپنی زبانوں میں ’’ترقی‘‘ کی ہے۔ ایک سال پہلے تک دنیا میں سب سے زیادہ تحقیقی مقالے امریکی دانش وروں کے شائع ہوتے تھے مگر چین نے اس میدان میں بھی امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، مگر اس اطلاع کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ چینی دانش ور یہ مقالے چینی زبان میں لکھ رہے ہیں۔ جاپان کی طرح چین بھی بہت تیزی کے ساتھ مغرب زدہ ہوتا جارہا ہے مگر چین نے ابھی تک اپنی زبان پر کوئی سودے بازی نہیں کی ہے۔ کوئی بھی زندہ قوم اپنی زبان پر سودے بازی نہیں کرسکتی۔ البتہ روحانی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تخلیقی اعتبار سے مردہ قوموں یا مردہ طبقات کی بات اور ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اردو ہمارے مذہب، تہذیب، تاریخ اور ماحول کی زبان ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ اسے نہ سرکاری زبان بننے دیتا ہے نہ ذریعہ تعلیم کے منصب پر فائز ہونے دیتا ہے۔ مقبوضہ اذہان آخر کب تک ملک و قوم سے انتقام لیں گے۔