کشمیر سے متعلق جتنی بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ بہت تشویشناک ہیں۔ مہینے کے قریب ہو گیا ہے لیکن کشمیر کی وادی سے نہ تو کرفیو اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی قتل عام رکا ہے۔ انسانی خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور عزت و آبرو پامال کی جارہی ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے نئے انتظامات کرلیے ہیں۔ سری نگر میں 2 درجن سے زائد نئے بنکرز اور مورچے قائم کر کے شارپ شوٹرز تعینات کر دیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری بھارت کے جبر اور ستم کے خلاف ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ کشمیر کے عوام کرفیو کی پروا کیے بغیر باہر نکلیں گے۔ ان کا کرفیو کی پابندیوں کے باوجود بھی اس طرح بے جگری سے باہر آنا ایک طرح کا بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف ایک ریفرنڈم ہوگا۔ بری خبر یہ ہے کہ بھارت نے بھی نماز جمعہ کے بعد باہر نکلنے والے کشمیریوں سے نمٹنے کے لیے مزید سخت انتظامات کر لیے ہیں۔ مودی حکومت نے ایک جانب تو سنگین سے سنگین اقدامات اٹھا رکھے ہیں اور آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے گولی و گولہ بارود کی زبان میں بات کی جارہی ہے تو دوسری جانب کشمیریوں کو 50 لاکھ سرکاری ملازمتیں دینے کا لالچ بھی دیا جارہا ہے۔ بعید نہیں کہ سرکاری ملازمتوں کی یہ پیشکش کسی کے پائے ثبات میں لغزش کا سبب بن جائے اور وہ آزادی کی جدوجہد سے اپنے آپ کو الگ کر لے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ کشمیریوں کا ضمیر اب اس حد تک جاگ چکا ہے کہ نہ تو وہ ظلم و جبر سے پریشان ہیں اور نہ ہی بڑی سے بڑی لالچ ان کے عزم کی راہ میں کوئی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میدان حشر بنا ہوا ہے اور وہاں کا بچہ بچہ آزادی کی تحریک سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔
ایک جانب کشمیریوں پر یہ قیامت ٹوٹی ہوئی ہے اور دوسری جانب وہ پاکستان جو کشمیر کو اپنی شہ رگ کہا کرتا تھا، اس کی جانب سے بھارت کے لیے نہایت نرم رویہ، کشمیریوں کے لیے دودھاری خنجر سے کم نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلے کا حل جنگ نہیں ہوا کرتی اور جنگ ہمیشہ تباہی و بربادی کی جانب لے جاتی ہے لیکن اپنے بھائیوں، بلکہ اپنے ہی کشمیر پر بھارتی ظلم و ستم کو دیکھنے کے باوجود کسی بھی قسم کا کوئی ایسا سخت قدم نہیں اٹھانا جس سے اس بات کا اظہار ہو کہ وہ بھارت کی ان ظالمانہ کارروائیوں پر سخت نالاں ہے، سمجھ سے باہر ہے۔
ماضی میں یہ بات دیکھی جاتی رہی ہے کہ جب جب بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی ناپسندیدہ قدم اٹھایا، پاکستان کی جانب سے نہایت سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اس نے پاکستان کی شہ رگ پر ایک ایسا بھرپور وار کیا ہے کہ رگ گلو سے فوارے کی طرح لہو جاری ہے لیکن ایک ماہ کے لگ بھگ ہونے کو ہے مگر سارے زمینی و فضائی راستے چوپٹ کھلے ہیں اور تجارتی قافلے یوں آ جا رہے ہیں جیسے بھارت اور پاکستان کے بیچ کسی بھی قسم کی کوئی کشیدگی موجود ہی نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ کرتار پور کی راہ داری کے متعلق پاکستان کی سرکار نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کچھ بھی ہو، اس پر کام جاری رہے گا۔ سفارت خانے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور کہیں سے کہیں تک اس بات کا احساس ہی نہیں ہو رہا کہ بھارت نے پاکستان کے کشمیر کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا ہے۔ کسی ملک پر حملہ ہو جائے اور حملہ ہوجانے کے چار ہفتے گزر جانے کے بعد اس ملک کی حکومت کو یہ خیال آئے کہ کم از کم احتجاج کرنا ہی ہمارا فرض بنتا ہے۔ ٹھیک چار ہفتے بعد کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر جمعہ کو ملک بھر میں دن کے بارہ بجے سائرن بجائے گئے۔ حکم جاری کیا گیا کہ پوری قوم گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آکھڑی ہو تاکہ دنیا کو اس بات کی خبر ہو سکے کہ پورا پاکستان کشمیر میں ہونے والا مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
ہم نے پاکستان میں بہت تماشے دیکھے لیکن جو تماشے اللہ موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں دکھا رہا ہے وہ تاریخ کے اس باب میں لکھے جائیں گے جن میں قوموں کے لطیفے اور ہنسنے ہنسانے کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں۔ جو حکمران قوم سے انڈے، مرغیوں، کٹے اور کٹیوں کی باتیں کرنے والے ہوں وہ قوم کو جہاد و قتال کی جانب کیا لیجا سکتے ہیں۔ کشمیر میں گزشتہ 25 دنوں سے خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور پاکستان کے حکمرانوں کو 25 دنوں کے بعد خیال آیا کہ ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور وہ خیال بھی انڈے، مرغیوں، بچھیاؤں اور بچھڑوں ہی کی طرح کا آیا۔ جن حکمرانوں کی سوچ معیشت کی بحالی کے لیے انڈوں، مرغیوں، بچھڑوں اور بچھیاؤں سے آگے نہ دیکھ سکتی ہو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دشمن کے ساتھ نبردآزما ہونے کے لیے تیر و تبر کی بات کر سکتے ’’چوزیانہ‘‘ خیال ہی ہو سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے بھارت کے خلاف کشمیریوں سے اس انداز کا اظہار یکجہتی جمعے کے جمعے پابندی کے ساتھ ہوا کرے گا۔ پاکستان کی قوم کو سوچ لینا چاہیے کہ جن حکمرانوں کو چار ہفتوں بعد اظہار یکجہتی کا خیال آیا اور وہ بھی جمعے کے جمعے، وہ بھارت کے خلاف مؤثر کارروائی کے بجائے کس قسم کا دست تعاون دراز کیے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے کا مطلب یہ کہ اب جو بھی کچھ ہوگا اس کے لیے مزید سات یوم کے بعد اعلان ہوگا کہ اب کیا کرنا ہے۔ گویا یہ اظہار یکجہتی نہ ہوا ’’جسمانی یا عدالتی‘‘ ریمانڈ ہو گیا جو چودہ چودہ دن کر کر کے کئی ماہ و سال میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔
یہ سارا انداز فکر اس بات کی جانب بہت واضح اشارہ ہے کہ اے پاکستانیوں اور پاکستانی کشمیریو، ستو پی کر گہری نیند سوجاؤ اور انتظار کرو اس بات کا کہ روس کسی طرح کشمیر میں داخل ہو جائے کیونکہ جب تک روس کشمیر میں داخل نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستان کے حکمرانوں اور عوام پر ’’جہاد‘‘ فرض نہیں ہوسکے گا اور جب تک حکمرانوں اور عوام پر جہاد فرض نہ ہو جائے اس وقت تک اس بات کی اجازت دی ہی نہیں جاسکتی کہ پاکستان کے عوام اپنے ہی کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف ’’ایل او سی‘‘ کے اس پار جا سکیں۔
ایک جانب بے حسی کا یہ عالم کہ پاکستان کے کشمیریوں کی سانسیں تک بند ہو نے قریب ہوں تو دوسری جانب خبر یہ ہے کہ ’’پاکستان نے زمین سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ میزائل غزنوی متعدد جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے 2 میزائل تجربے کیے ہیں۔ پاکستان نیوی کی جانب سے سمندری حدود میں اینٹی شپ حربہ نیول کروز میزائل کا تجربہ کیا گیا جو سطح سے سطح تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس کے بعد پاکستان نے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے‘‘۔
حکومت یہ سمجھانے کی کوشش کرے گی کہ یہ سب ہتھیار بلکہ ہتھیاروں کے انبار کس کے خلاف لگائے جارہے ہیں۔ کوئی معمولی سا تجربہ بھی کیا جائے تو قوم کے کھربوں روپے کا خون پسینہ کام آتا ہے۔ اسلحے کے یہ انبار اگر کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر بھی صرف خفیہ تہ خانوں کی زینت بنانے کے کام آتے ہیں تو قوم کو ان تمام فضولیات سے کوئی مطلب نہیں۔ اس لیے اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ان تجربوں کو اس وقت کیے جانے سے قوم داد تحسین دے گی، غلط ہے، اس لیے کہ ایسے بے شمار ہتھیار پاکستان کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں بلکہ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد بھارت سے کہیں زیادہ ہے اور اس کی فوج دنیا کی ’’نمبرون‘‘ شمار کی جاتی ہے۔ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، میزائلوں کے تجربوں پر تجربے دیکھنے کے باوجود بھی اس وقت کشمیری صرف آپ کی نظر عنایت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور زبان خاموشی سے یہی کہہ رہے ہیں کہ
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی