صاحبو! مودی اور مکھیوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ دونوں ہی بس میں نہیں۔۔ ایک کا علاج جہاد اور دوسری کا صفائی ہے۔ حکومت دونوں ہی سے گریزاں ہے۔ جب گانے اور کھیلنے والے معاشرے کے ہیرو بن جائیں تو صناع اور سپاہی ناپید ہوجاتے ہیں۔ عالمی برادری تو جہاد اور دہشت گردی میں تمیز نہ کرسکی۔ حکومت کے فہم کا بھی یہ عالم ہے کہ ڈمپل اور ڈینٹ اسے ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی حکومت اور حکمران کا ذکر ہو تو ہمیں ایک شعر بار بار یاد آتا ہے:
جسے ہر دم اچھالتا ہوں ظفر
کہ اٹھنی ہے، وہ بھی کھوٹی ہے
عیدالاضحیٰ کے حوالے سے کبھی قربانی کی کھالیں موضوع گفتگو رہتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں میں مقابلہ ہوتا تھا کس نے کتنی کھا لیں حاصل کیں۔ دینی مدارس بھی محدود وسائل اور نفری کے ساتھ کھالوں کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ایک شخص نے دینی مدرسے کے مہتمم کو فون کرکے کہا ’’برائے مہربانی کوئی بندہ بھیج کر قربانی کی کھال اٹھوالیجیے‘‘۔ مہتمم صاحب نے جواب دیا ’’تھوڑی دیر کے لیے آپ ہی بندے بن جائیں، کھال خود ہی مدرسے پہنچا دیں‘‘۔ اس عیدالاضحیٰ پر نہ کھالیں موضوع تھیں نہ مہنگے جانور۔ بارش، بارش اور مکھیاں۔ بے حدوحساب مکھیاں۔ کراچی پہلے ہی ایک بڑا کچرا گھر بنا ہوا تھا۔ عید پر جانوروں کی آلائشوں، بارش اور مکھیوں کی یلغار نے وہ حالت کی کہ ہر فرد جان کڈھ لئی اے بے ایمانا کی صورت بن گیا۔
کراچی کو نظر اٹھا کر دیکھنے اور صفائی کی بات کی جائے تو جمہوریت کا حسن آڑے آ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو کچرا اٹھانے کا کہا جائے تو وہ کہتی ہے یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ صوبائی حکومت کو توجہ دلائی جائے تو وہ طنزیہ فقروں کا رخ بلدیہ کی طرف موڑ دیتی ہے۔ بلدیہ کا مطلب ہے میئر کراچی وسیم اختر، وہ الطاف حسین کی گرمیٔ صحبت سے ابھی تک نہیں نکلے۔ بولتے ہیں تو بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مسئلہ دیار حرماں سے کوسوں دور جا نکلتا ہے۔
مکھی پر مکھی بٹھلاتے رہتے ہیں
پھر مکھی پر مکھی مارتے رہتے ہیں
ایک مکھی نے دوسری مکھی سے کہا: ’’آدمی بہت بے وقوف ہوتے ہیں‘‘۔ ’’کیوں‘‘ دوسری نے پو چھا۔ ’’یہ بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے کہ چھت بناتے ہیں۔ اس پر اتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد چلتے فرش پر ہیں‘‘۔ کراچی میں چھت ہو یا فرش، کمرہ ہو یا صحن، گلی ہو یا سڑک، چمن ہو یا کچرا گھر ہر جگہ مکھیوں کے غول نظر آتے ہیں۔ عید پر فقیروں کی یلغار ہی کیا کم تھی کہ مکھیوں نے بھی حملہ کردیا۔ کراچی کراچی نہیں پیٹھے کی مٹھائی محسوس ہوتا ہے۔ مکھیوں کو دعوت وصل دیتا ہوا۔ مکھیوں کا ہیائو ایسا کھلا ہے کہ چپک کر بیٹھنے سے کم کسی بات پر راضی ہی نہیں ہوتیں۔ جس طرح مرغی چوزے کو پروں میں ڈھانپ لیتی ہے ایسے ہی مکھیوں نے کراچی کو دبوچ رکھا ہے۔ مکھیوں کی وہ کثرت ہے کہ پیرس کے ایک اخبار میں چھپا اشتہار یاد آجاتا ہے۔ لکھا تھا ’’ایک عدد بیوی کی ضرورت ہے‘‘۔ دوسرے دن ہزاروں خطوط موصول ہوگئے۔ سب پر ایک ہی بات لکھی تھی ’’تم ہماری بیوی لے لو‘‘۔ آغا شورش کاشمیری نے ایک جگہ لکھا ہے ’’پنجابی کا عشق بھنورے کا عشق ہے۔ سندھی کا عشق مکھی کا عشق ہے اور پٹھان کا عشق چمگادڑ کا عشق ہے‘‘۔ کوئی بھی مضمون ہو مکھیوں سے مفر نہیں۔
مکڑی کہیں مکھی کو گرفتار نہ کرلے
وہ شوخ نگا ہوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں
بادشاہ، بچے اور عورت کی ضد اپنی جگہ مکھی بھی کم ضدی نہیں ہوتی۔ کتنا ہی ہٹائیں، بھگائیں پھر آموجود۔ موٹر سائیکل پر آج کل مخالف ہوا کا ہی نہیں مکھیوں کی ٹکروں کا بھی سامنا ہے۔ ادھر حبس سے گھبرا کر ہیلمٹ کا ڈھکنا ہٹایا مکھیاں اس طرح پے درپے ٹکریں مارتی ہیں کہ چہرہ گلنار ہوجاتا ہے۔
جانے کیا معاشرے کی حالت ہے
شور گھر گھر ہوا ہے مکھی کا
ایک سیٹھ صاحب سے کاروباری مندے کی بابت پوچھا تو پھٹ پڑے۔ بولے ’’یہ ہر وقت کی ناشکری اچھی بات نہیں ہے۔ جسے دیکھو جہاں دیکھو مندے کا رونا رو رہا ہے۔ ٹی وی کے جس اینکر کو دیکھو مائیک پکڑے ایک سے ایک خرانٹ، بد مزاج بندے اور چیل جیسی بندی سے پوچھتا پھررہا ہے ’’مہنگائی کے بارے میں کچھ بتائیں گے آپ‘‘ جیسے مہنگائی نہ ہوتی تو یہ رنجھ رنجھ کے مرتے جھلستے بھلستے لوگ ہزار سال جی لیتے۔ جسے دیکھو مہنگائی اور مندے کا ذکر۔ مجھے دیکھو پہلے دو فی صد مصروفیت تھی پھر آٹھ فی صد ہوئی آج کل بیس فی صد ہے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے کو ابھی بتاتا ہوں۔ میرے پاس ایک ٹیبل ٹینس کا ریکٹ ہے۔ پہلے اس سے ایک دو مکھیاں مارتا تھا۔ فرصت بڑھی تو نوبت سات آٹھ مکھیوں تک جا پہنچی۔ آج کل سوتے اونگھتے بھی بیس پچیس مکھیاں مار لیتا ہوں۔ ’’دیکھو یہ پڑی ہیں‘‘۔ ہم نے کونے کی طرف دیکھا تو مری ہوئی مکھیوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔
ایک زمانے میں مچھروں کو بھگانے والا لوشن مارکیٹ میں آیا تو ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا۔ مچھر آپ سے دور رہنے پر مجبور۔ ان ہی دنوں ایک لطیفہ بھی گردش میں تھا ’’ایک مچھر کو مکھی سے پیار ہوگیا۔ دونوں نے شادی کرلی۔ رات کو مچھر کمرے سے باہر ٹہل رہا تھا۔ اس کے دوست نے پوچھا ’’خیریت، باہر کیا کررہے ہو، بھابھی کہاں ہے‘‘ مچھر غصے سے بولا ’’کمینی اندر موسپل لگا کر سو رہی ہے‘‘۔ مکھیوں کو بھگانے کی ایسی کوئی دوا ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ آج بھی مکھیوں کے خلاف سب سے موثر ہتھیار پنکھا ہے۔ ایک دوا ساز کمپنی کی طرف سے اشتہار دیا گیا ’’اگر آپ چاہتے ہیں کھانا کھاتے وقت مکھیاں آپ سے دور رہیں اور کھانے پر نہ بیٹھیں تو سو روپے کا وائوچر بھریں اور دوا حاصل کریں۔ مکھیاں آپ کے کھانے پر نہیں بیٹھیں گی‘‘۔ ایک شخص نے فیس بھر کر کمپنی کے مینیجر سے دوا طلب کی تو اس نے ایک دستی پنکھا دیتے ہوئے کہا ’’ایک ہاتھ سے کھانا کھائیں دوسرے ہاتھ سے جھلتے رہیں۔ مکھیاں کھانے پر نہیں بیٹھیں گی‘‘۔
مکھیوں کا ذکر ہو اور مکڑیوں کا ذکر نہ ہو یہ اقبال نا شناسی کی علامت ہے۔ جہاں مکھی ہوگی وہاں چالاک مکڑا بھی ہوگا۔ شکار کرنے کے لیے۔ مکھیوں کو کھانے کے لیے۔
مکڑی نے پہلے جال بنا میرے گرد پھر
مونس بنی، رفیق بنی، پاسباں ہوئی