سفارتی، معاشی اور عسکری اقدام کی ضرورت

282

بھارت نے کشمیر پر قبضے کو اپنے آئین میں ترمیم کے ذریعے مستحکم کرنے کا قدم اُٹھالیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے جواباً بیانات کی توپیں چلائیں لیکن ان کی مصروفیت تو اپوزیشن کی دو پارٹیوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرا قرار دلوانے اور انہیں سزائیں دلوانے کی تھی۔ جب قوم کا غصہ دیکھا تو کچھ آنیاں جانیاں دکھائیں اور پورا میڈیا واہ واہ میں مصروف ہوگیا۔ وزیراعظم نے اس دوران عوام کی مشکلات میں بہت کمی کردی۔ مثال کے طور پر مری کا گورنر ہائوس عوام کے لیے کھول دیا گیا، بجلی اور گیس کے بل جمع کرانے کی مہلت 7 کے بجائے 15 دن کردی گئی۔ ترسیلات زر پر بینک فیس بھی ختم کردی، پھر اگلے دن انہوں نے مزید کرم فرمائی کی اور ملک میں مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کا اعلان کردیا، بلکہ کاروبار آسان بنانے کا بھی حکم دے دیا۔ عوام کو اس پر خوش ہونا چاہیے لیکن یہ کیا کہ اس حکم کے ساتھ ہی عوام نے بینکوں سے سات سو ارب روپے سے زیادہ نکال لیے۔ اسے بینکوں پر عدم اعتماد کہا جائے یا حکومتی اقدامات سے خوفزدگی، لیکن عملی صورت حال یہی ہے کہ حکومت کے اقتصادی اقدامات معاشی تباہی کی طرف لے جارہے ہیں اور بین الاقوامی محاذ پر معاملات صرف بیانات اور بڑھکوں تک محدود ہیں۔ برسوں قبل ہم نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں یہی کہا تھا کہ ہر جمعے کو اور عیدین کے اجتماع میں یا کسی مذہبی جلسے کے اختتام پر دعائوں میں یہ جملہ سنتے کہ یا اللہ کشمیر و فلسطین کو آزادی عطا فرما اور سارا مجمع بھرپور طریقے سے آمین کہتا تھا۔ دل کی گہرائیوں سے ہم بھی آمین کہتے تھے لیکن کسی عملی جدوجہد کے بغیر ہم دعائوں کے سہارے کشمیر آزاد کرانے چلے تھے۔ اب بھی جدوجہد کے بغیر عملی قدم اُٹھائے بغیر محض بیانات کی توپوں سے کشمیر آزاد کرانے چلے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مضمون اس وقت لکھا تھا جب کشمیریوں نے اپنی جدوجہد شروع نہیں کی تھی۔ لیکن پھر بھی ایک دفعہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کرلیں کہ یا اللہ کشمیریوں کو آزادی نصیب فرما اور اُمت مسلمہ کو شوکت و غلبہ عطا فرما۔
ایک طرف یہ رویہ ہے کہ بھارت نے کشمیر میں خصوصی بنکرز تعمیر کرلیے ہیں، فوجی وردی میں ہزاروں مسلح غنڈے بھی وادی میں بھیج دیے ہیں اور ہم آدھے گھنٹے کے لیے قوم کو سڑک پر کھڑا کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر آزاد ہوجائے گا۔ اب تک حکمران یہ فرق نہیں کرسکے کہ حکومت کے کرنے کے کام کیا ہوتے ہیں اور اپوزیشن یا دیگر
سیاسی پارٹیوں کے کام کیا ہوتے ہیں، حکومت بھرپور طریقے سے ایک عام سیاسی جماعت کی طرح کے اقدامات کررہی ہے اور اس کی کابینہ کے ارکان کا بیشتر وقت واہ واہ کرنے میں گزر رہا ہے۔ وزیراعظم نے تقریر کی اور قوم سے کہا کہ کشمیر کے لیے آخر حد تک جائیں گے۔ مودی کو جو کرنا تھا کرچکا اور اب جو کرنا ہے ہم کریں گے۔ انہوں نے یہ کہا کہ بھارت کو اس اقدام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ عمران خان کی تقریر سن کر مودی کی نیند اُڑ گئی ہوگی۔ فردوس صاحبہ کو پتا نہیں کہ مودی عمران کی تقریر کیوں سنے گا۔ پاکستانی عوام کا مزید دبائو پڑا تو وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے بہت غور کیا کہ کوئی قدم اٹھایا جائے بھارت کے فضائی اور زمینی راستے بند کرنے کی تجویز سامنے آئی تو کابینہ کو رحم آگیا اور اس فیصلے کو موخر کرکے پاکستان کے زمینی راستے آدھے گھنٹے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر اس پر عمل بھی کر ڈالا۔ جس انداز میں کشمیر آور (کشمیر گھنٹہ) منایا گیا اور وزیراعظم اور وزرا قوم کو سڑکوں پر نکال کر تقریر کررہے تھے یقینا اس سے مودی کا دل دہل رہا ہوگا۔ یہ کام ہونا چاہیے تھا، انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جانی چاہیے تھی لیکن جو کچھ بھی ہونا تھا کنٹرول لائن پر ہونا چاہیے تھا۔ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کو کنٹرول لائن پر کھڑے
ہو کر کشمیریوں کو اظہار یکجہتی کا پیغام دینا چاہیے تھا۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت یہ سب نہ کرے تو کیا کرے۔ اگرچہ یہ بات بتانے کی نہیں کہ حکومت کیا کرے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرے لیکن پھر بھی اتنا تو بتادیتے ہیں کہ بھارت کے خلاف سفارتی، معاشی اور عسکری میدانوں میں بیک وقت کارروائی کرے۔ سفارتی میدان میں کام صرف ٹیلی فون سے نہیں چلے گا۔ روز خبر آتی ہے کہ فلاں فلاں ہم منصب کو پاکستان کے کسی منصب دار کی جانب سے فون پر مسئلہ کشمیر سے آگاہ کیا۔ فون پر مسئلہ کشمیر حل ہونا ہوتا تو کب کا حل ہوگیا ہوتا۔ ہاں فون بھی کس کا کس کو جارہا ہے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر بش کا فون پرویز مشرف کے پاس آئے تو بات مان لی جاتی ہے۔ اور فون کالز نہیں ایک ہی فون کال کافی ہوتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی کال پر کون مسئلہ کشمیر نہیں سمجھ سکے گا۔ کشمیریوں کے نمائندوں کو دنیا بھر میں لے کر جانا ہوگا۔ معاشی طور پر بھارت سے آنے والے گٹکے، کپڑے، مصنوعی زیورات اور فلمیں وغیرہ بند کرکے اسے نقصان پہنچایا جائے۔ عسکری میدان میں بھی اس کے اقدامات کا جواب یہی تھا کہ پاکستانی فوج کی قابل ذکر تعداد کو کنٹرول لائن پہنچایا جائے اور جس چیز نے بھارتی فوج کی ناک میں دم کر رکھا تھا وہ سلسلہ بحال کردیا جائے۔ گانے، ترانے اور سائرن سے مسئلہ کشمیر حل ہونے والا نہیں۔