نقار خانے میں توتی کی آوازیں

198

 

 

کشمیر میں جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس پر پاکستان کی ساری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ یہ وہ کشمیر ہے جس پر بھارت نے فوج کشی کی تھی وہ ان ہی کا تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اگر یہ قبضہ کیا ہوا کشمیر واقعی پاکستان کا ہوتا تو پاکستان کی جانب سے یقینا شدید رد عمل سامنے آتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پہلے دن ہی سے پاکستان کا رویہ مقبوضہ کشمیر کے لیے سنجیدہ ہوتا تو بھارت کو اتنی جرات ہی نہ ہوتی کہ وہ کشمیر کی جانب میلی آنکھ سے دیکھتا اور جس طرح کا ظلم و ستم بھارت گزشتہ ایک ماہ سے کشمیریوں پر ڈھائے ہوئے ہے، ایسا کرنا تو در کنار، بھارت کے لیے ایسا سوچنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ کشمیر پر ظلم کے خلاف جہاں جہاں بھی پاکستان میں آواز اٹھائی جارہی ہے اور جہاں جہاں بھی سیاسی و مذہبی جماعتوں، اور خاص طور سے جماعت اسلامی کی جانب سے جلسہ، جلوس یا ریلی نکالی جارہی ہے وہاں وہاں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اور شرکا کا جوش و خروش اس بات کا مظہر ہے کہ لوگ کشمیر کے لیے جو کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں، ہماری حکومت اور عسکری قوتیں ایسا کرنے سے سخت گریزاں ہیں۔ ان کے گریزاں ہونے کا سبب یقینا کسی مصلحت کا شاخسانہ ہی کیوں نہ ہو لیکن پاکستان کے عوام اس وقت کسی بھی مصلحت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے سخت مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ پورے پاکستان میں کشمیر کے لیے جو ہمدردی اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم پر جوابی کارروائی کا مطالبہ روز بروز زور پکڑتا جارہا ہے اور اگر حکومت پاکستان اسی طرح لبوں پر تالے لگائے بیٹھی رہی اور توپوں کے دہانوں میں پرندے اپنے گھونسلے بنا کر انڈے بچے ہی دیتے رہے تو پھر جو کشمیر پاکستان کے زیر تسلط ہے، ناممکن نہیں کہ وہ کشمیر بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے اور حکمران ’’اب کی مارکے دیکھ، اب کی مار کے دیکھ‘‘ کی گردان کرتے کرتے یا ’’ساتھ کھڑے‘‘ رہنے کا دعویٰ کرتے کرتے کھڑے کے کھڑے ہی رہ جائیں اور بھارت پورے کا پورا کشمیر ہی ہڑپ کر جائے۔
کل کراچی کا موسم بہت ہی بگڑا ہوا تھا۔ اللہ کے بندے جس کو ابر رحمت کہتے ہیں اور جو برسات رحمت میں شمار کی جاتی ہے وہ اہل کراچی کے لیے زحمت اور عذاب الٰہی ثابت ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ دو تین ہفتوں سے یہی ابر رحمت لوگوں کی زندگیوں کے لیے جان کا عذاب بنی ہوئی ہے۔ کل جبکہ یہی ابر رحمت اہل کراچی کے لیے زحمت بنا ہوا تھا اور آسمان برس رہا تھا اس وقت بھی جماعت اسلامی کی جانب سے کشمیر کے سلسلے میں اظہار یک جہتی پر جمع ہونے کی دعوت پر لوگ کسی بھی قسم کی موسم کی سختی کا خیال کیے بغیر والہانہ طور پر کشمیریوں کے دکھ میں آوازِ ہمدردی بلند کرنے کے لیے گلیوں، بازاروں اور شاہ راہوں پر نکل کھڑے ہوئے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے سامنے کراچی میں ہونے والی بارش کی تباہ کاریاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے لیے اگر کوئی بات اہم تھی تو وہ فقط کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ہی تھا جس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شاہراہ فیصل پر جمع ہوئے اور ارباب حکومت و اختیار سے مطالبہ کیا کہ کشمیرکے لیے صرف زبان سے توپیں داغنے سے کام نہیں چلے گا، اس لیے کہ جس دشمن سے آپ کا مقابلہ ہے وہ باتوں کا نہیں لاتوں کا بھوت ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے تحت ’’آزادی کشمیر مارچ‘‘ بارش کے دوران بھی جاری رہا اور لاکھوں شرکا انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ مارچ میں شریک رہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کشمیریوں سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ، کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی جنگ رہے گی اور کشمیر بنے گا پاکستان سمیت دیگر نعروں کی گونج میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی آزادی کی جدو جہد تمام عالمی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جائز اور قانونی جدو جہد ہے اور جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی افواج موجود ہیں تو پاکستانی فوج کو بھی وہاں ہونا چاہیے۔ ہماری فوج دنیا کی ایک بہترین اور باصلاحیت فوج ہے۔ آج پورے پاکستان کے عوام افواجِ پاکستان کے سپہ سالار سے بھی سوال کر رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیا روڈ میپ بنایا گیا ہے۔
یہ ریلی اس بات کا مظہر ہے کہ فرقہ وارانہ اور سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن کشمیر کا معاملہ ایسا ہے جس پر کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ پیغام ارباب حکومت و اختیار کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ اسے کشمیر کے سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔ باعث تشویش بات یہ ہے کہ کشمیرکے سلسلے میں پاکستانی قوم کی جانب سے آنے والے اس ردعمل کو سمجھنے کے بجائے، اسے سرد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسا کیوں اور کس لیے ہے، اس کا جواب حکومت دے سکتی ہے یا پھر عسکری قیادت لیکن جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر نوشتہ دیوار کو پڑھنے کے بجائے اسے مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی پر گامزن رہا گیا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عسکری طاقت کے ہاتھ سے بہت کچھ نکل جائے اور معاملات اس حد تک بگڑ جائیں کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے۔ کشمیر پر گلی گلی احتجاج اپنی جگہ لیکن جو پیغام مسلسل حکومت کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ممکن ہے کہ اتنا اثر پزیر نہ ہو رہا ہو۔ گلی گلی، محلوں محلوں، گاؤں گاؤں اور شہروں شہروں جلسے، جلوس، ریلیاں اور نعرہ بازی عوامی بیداری کے لیے ایک مؤثر طریقہ تو بے شک ثابت ہو سکتا ہے لیکن حکومتی اور عسکری ایوانوں کے لیے ان کی اہمیت نقارخانوں میں توتی کی آواز سے زیادہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اتنے بڑے سانحے کے بعد اور کشمیر میں ہونے والے بے پناہ ظلم ستم کو دیکھنے پر حکومت پاکستان کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر بے حسی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ جنگ نہ تو کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی جنگ پہلا آپشن ہونا چاہیے لیکن جس طرح ماضی میں کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کیے جاتے رہے ہیں، زمینی اور فضائی راستے بند کیے گئے ہیں اور تجارتی تعلقات توڑے جاتے رہے ہیں، اپنی ہی شہ رگ پر حملے کے بعد ایسا کچھ بھی نظر نہ آنا بلکہ اس کے بر عکس قوم کو مختلف انداز میں بہلانے کی کوششوں کا سامنے آنا ایک ایسا عمل ہے جس کو کوئی نام دینا بہت ہی مشکل نظر آرہا ہے۔ اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایوان ہائے حکومت اور عسکری قیادت کے گرد بھی دھرنے شروع کیے جائیں اور ان کو معاملے کی نزاکت کا نہ صرف احساس دلایا جائے بلکہ قوم کے جذبات ان تک پہنچائے جائیں۔ ورنہ بے شک جہاں چاہے اور جتنا چاہیں پاکستان کے ایک ایک چپے پر شور مچائیں ان کا شور اور احتجاج ایوان ہائے اقتدا و اختیار میں سوئی ہوئی قیادت کو جگانے میں ناکام و نا مراد رہے گا اور ان کے لبوں سے بلند ہونے والے نعروں کی گونج کو نقارخانوں میں توتی کی آواز سے زیادہ کوئی اہمیت حاصل نہ ہو سکے گی۔