مقبوضہ کشمیر ،کرفیو کا 31 واں روز ،ایک اور طالبعلم شہید،صحافی پر تشدد ،مئیر سرینگر نظر بند

56

سرینگر (خبر ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا 31 واں روز۔ایک اور طالبعلم شہید۔صحافی پر تشدد۔میئر سری نگر بھی نظر بند۔تفصیلات کے مطابق بھارتی فوجیوںنے گیارھویں جماعت کے طالب علم کو شہید کردیا جبکہ وادی کشمیر اور جموں ریجن کے پانچ اضلاع میں مسلسل31ویں دن بھی معمولات زندگی مفلوج رہے۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق کشمیری طالب علم اسرار احمد خان چند روز قبل سرینگر کے علاقے صوہ میں مظاہرین پر بھارتی فوجیوں کی طرف سے پیلٹ گنز کے بے دریغ استعمال کے باعث زخمی ہو گیا تھا جو سرینگر کے ایک اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔قابض انتظامیہ نے نوجوان کی شہادت پر احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلیے سرینگر میں کرفیو اور دیگر پابندیوں کو مزید سخت کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی کرفیو رائج ہے اور بازار بند اور سڑکوںپر گاڑیوںکی آمدورفت معطل ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے 50ہزار کے قریب پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں بند پڑی ہیں جبکہ ٹرین سروس بھی معطل ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے انٹرنیٹ ، موبائل فون ، ٹیلی فون اورٹی وی چینلوںکی بندش کی وجہ سے وادی کشمیرکابیرونی دنیا سے رابطہ مسلسل منقطع ہے۔لوگوںکو خوراک، ادویات اور دودھ سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھر حریت کارکنوں نے مقبوضہ کشمیرمیں پوسٹرز اور پمفلیٹس کے ذریعے جاری ہونیوالے اپنے پیغامات میں کہاہے کہ بھارت انہیںمار توسکتا ہے لیکن ہمارا نظریہ نہیں مٹا سکتااور وہ ایک روز ضرور اسے شکست دیں گے۔ کارکنوںنے کہاکہ بھارت نے ہمیں انتہائی سخت جان بنا دیا ہے اور وہ اللہ کے فضل سے اپنی قوم کے آگے کھڑے ہیں تاکہ اسے بھارت کی کارروائیوں سے بچاسکیں۔ علاوہ ازیںبھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کیلیے کام کرنا تقریبا ناممکن بنادیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے باعث صحافیوں کے لیے نہ صرف معلومات فراہم کرنے میں شدید دشواریاں ہیں بلکہ سفر کرنا بھی خطرناک ہوگیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صحافی ریاض مسرور نے بتایا کہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ کرنا مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافیوں دونوں کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے، ایک ماہ سے پابندیاں نافذ ہیں، تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بند ہونے کی وجہ سے صحافی اپنا کام نہیں بھیج پاتے۔صحافی شون ستیش نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں کام کرنا تقریباً ناممکن ہے اور کوئی آزادی نہیں ہے، ایک روز رپورٹنگ کے دوران ایک کشمیری نوجوان نے اپنی موٹرسائیکل پر مجھے لفٹ دی، تو رستے میں مجھے ہمیں بھارتی سی آر پی ایف نے روکا، انھوں نے روک کر اس نوجوان سے کافی سوال پوچھے اور تلاشی لی تو اس سے صرف ایک صفائی کرنے والا کپڑا ملا، لیکن بھارتی فورس نے نوجوان پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ تم تو پتھراؤ کرنے میں ملوث ہو، اہلکاروں نے مجھے سے کیمرہ اور فون چھین لیا، الٹے سیدھے سوالات پوچھتے رہے اور تھانے لے جاکر پولیس کے حوالے کرکے حراست میں لے لیا اور کافی دیر بعد چھوڑا۔مقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر کے میئر جنید عظیم مٹو کو نئی دہلی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے پر تنقید کرنے کے بعد نظربند کردیا گیا۔بھارتی نیوز ویب سائٹ دی کوئنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سری نگر کے میئر نے نئی دہلی کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے مختلف لوگ اپنے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کر پارہے۔اس بارے میںبھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی نے لکھا کہ جنید عظیم مٹو کو دہلی سے واپس آنے کے بعد نظر بند کیا گیا، وہ بھارتی دارالحکومت میں علاج کے لیے گئے تھے۔اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی نظربند کردیا گیا تھا۔دریں اثناء بھارت کی تہاڑ جیل میں قید حریت رہنما یاسین ملک کی طبیعت بگڑ گئی۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نئی دلی کی تہاڑ جیل میں یاسین ملک سے ملاقات کرکے آنے والے ان کے عزیز نے حریت رہنما کی طبیعت سے آگاہ کیا۔کے ایم ایس کے مطابق جیل میں قید یاسین ملک کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی انتظامیہ نے یاسین ملک کو ایک جھوٹے فنڈنگ کیس میں چند ماہ قبل گرفتار کیا تھا جب سے وہ بھارتی حکام کی قید میں ہیں۔ یاسین ملک کو پہلے مقبوضہ کشمیر میں رکھا گیا جس کے بعد راتوں رات خفیہ طور پر تہاڑ جیل منتقل کردیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر