مذاکرات… بے وقت کی راگنی

192

 

 

ہمارے قابل وزیر خارجہ نے نہایت دانشمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اُٹھالے، حریت قائدین کو رہا کردے اور ان قائدین تک ان کی رسائی کو ممکن بنادے تو وہ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اگر بالفرض بھارت ان کی یہ شرائط پوری کردیتا ہے تو وزیر خارجہ بتائیں کہ وہ بھارت سے کیا مذاکرات کریں گے اور ان مذاکرات کے ذریعے وہ بھارت سے کیا حاصل کرپائیں گے۔ کیا وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر ضم کرنے کے یکطرفہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات واپس لینے اور اسے علاقے میں آزادانہ رائے شماری کرانے پر آمادہ کرلیں گے؟ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو ہمارے وزیر خارجہ کو بتانا چاہیے کہ اس احمقانہ پیش کش کا مطلب کیا ہے اور پاکستان کو مذاکرات کی رٹ لگانے سے کیا حاصل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ان کے درمیان مذاکرات کا کوئی آپشن نہیں رہا۔دونوں ملکوں کے درمیان کم و بیش ڈیڑھ سو بار مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن ان مذاکرات میں کبھی بھی بنیادی ایشو پر ٹھوس بات چیت کی نوبت نہیں آسکی۔ بھارت ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور ان مذاکرات کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن برآمد ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم اور مشہور مذاکرات پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کے درمیان 1960ء کی دہائی میں ہوئے تھے۔ ان مذاکرات میں پہل خود بھارت نے کی تھی اور امریکا و برطانیہ نے زبردست سفارتی کوششوں کے ذریعے پاکستان کو اس پر آمادہ کیا تھا۔ پس منظر ان مذاکرات کا یہ تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری تھیں اور بھارت نے چین سے مقابلے کے لیے اپنی ساری فوج سرحدوں پر لگا رکھی تھی۔ ایسے میں چینی حکمرانوں نے پاکستان میں حکمران جنرل ایوب کو یہ خفیہ پیغام بھیجا تھا کہ بھارت کی ساری فوج ہمارے ساتھ سرحدوں پر اُلجھی ہوئی ہے، کشمیر خالی پڑا ہے، پاکستانی فوج پیش قدمی کرکے اس پر قبضہ کرسکتی ہے۔ اس پیغام کی سن گن بھارت کو بھی لگ گئی۔ اس نے فوراً امریکا اور برطانیہ کو صورت حال سے آگاہ کیا اور یہ دونوں ملک پاکستان کو کشمیر میں فوجی کارروائی سے روکنے کے لیے میدان میں آگئے۔ زبردست سفارتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں، جنرل ایوب خان کو کہا گیا کہ آپ فوجی کارروائی نہ کریں ہم مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرائے دیتے ہیں۔ بھارت کو اشارہ کیا
گیا کہ وہ فوراً پاکستان کو مذاکرات کی پیش کش کردے۔ چناں چہ اس نے بلاتاخیر پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دے دی۔ چناں چہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ۔ یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت کے چھ بڑے شہروں میں وقفے وقفے سے کئی ماہ تک جاری رہے۔ ان مذاکرات کو طول دینے کا واحد مقصد چین بھارت سرحدی صورت حال کو معمول پر لانا تھا۔ چین نے اگرچہ بھارت کو سرحدی جھڑپ میں بری طرح شکست دے دی تھی لیکن اس کا مقصد بھارت پر غلبہ حاصل کرنا نہیں تھا۔ چناں چہ جب اس نے دیکھا کہ پاکستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے بھارت سے مذاکرات شروع کردیے ہیں تو چین نے بھی سرحدوں سے فوجیں واپس بلالیں اور چین بھارت سرحدی صورت حال معمول پر آگئی۔ جوں ہی حالات معمول پر آئے بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ڈراما یہ کہہ کر ختم کردیا کہ ’’فریقین کے درمیان مسئلہ کشمیر پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا‘‘۔ مذاکرات کا آخری رائونڈ نئی دہلی میں ہوا۔ اور 6 مئی 1963ء کو پاکستانی وزیر خارجہ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج میں بہت مایوس ہوں اب مذاکرات کسی صورت جاری نہیں رہ سکتے‘‘۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ بہت طویل ہے لیکن نتیجہ سب مذاکرات کا یہی نکلا ہے کہ بھارت نے ان مذاکرات میں کبھی مسئلہ کشمیر پر بات ہی نہیں کی اور ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور اب تو اس کا یہ موقف بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کہ اگر کبھی مذاکرات ہوئے تو وہ مقبوضہ کشمیر نہیں آزاد کشمیر کا سوال اٹھائے گا اور پاکستان سے پوچھے گا کہ وہ آزاد کشمیر کب اس کے حوالے کرے گا۔ ہمارے وزیر خارجہ نجانے کس خوش فہمی میں بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کررہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نجانے کس خیالی دنیا میں کہتے ہیں کہ انہیں اب بھی مذاکرات ہی میں مسئلہ کشمیر کا حل نظر آرہا ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ عالمی استعماری طاقتوں کو کشمیری عوام پر بھارت کے مظالم کی کوئی فکر نہیں، اگر فکر ہے تو یہ کہ پاکستان بھارت کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے پائے اس لیے امریکا ہو یا روس یا برطانیہ یا یورپی یونین سب مذاکرات کی رٹ لگارہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب مل کر پاکستان کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر لے جائیں گے۔ جس کے لیے پاکستانی حکمران ذہنی طور پر پہلے ہی تیار ہیں اور پاکستان کشمیر کو آزاد کرانے کا ایک سنہری موقع پھر ضائع کردے گا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ تمام تر پابندیوں، جبر و تشدد اور فوجی محاصرے کے باوجود پوری کشمیری قوم بھارت کے خلاف حالت جنگ میں ہے وہ پاکستانی فوج کو مدد کے لیے پکار رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے در و دیوار ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے سے گونج رہے ہیں اور دیواروں پر پاکستانی فوج کے پوسٹرز لگائے جارہے ہیں۔ اندریں حالات حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ اگر اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کے شورش زدہ علاقے میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اپنی امن فوج نہیں بھیجتی تو یہ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو بچانے کے لیے پیش قدمی کرے اور علاقے میں اپنی فوجی بھیجے کہ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق کی حیثیت سے یہ اس کی مذہبی، اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے۔ حاصل کلام یہ کہ مذاکرات ایک بے وقت کی راگنی ہے اور پاکستان کے حکمران یہ راگ الاپ کر کشمیر سے بیوفائی کرنے والوں میں اپنا نام نہ لکھوائیں۔