مری تعمیر میں مضمر ہے ’’ہر صورت‘‘ خرابی کی

301

 

 

میر نے دلّی کے بارے میں کہا تھا۔
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
یہ بات دُنیا کے کتنے شہروں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے؟ کراچی دلّی نہیں ہے مگر اس کے گلی کوچوں نے بھی کبھی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو ’’تصویر‘‘ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ کراچی کبھی قائد اعظم کا شہر تھا۔ لیاقت علی خان کا شہر تھا۔ مادر ملت کا شہر تھا۔ کراچی مفسر قرآن مفتی شفیع کا شہر تھا۔ عسکری صاحب کا شہر تھا۔ سلیم احمد کا شہر تھا۔ مدنی صاحب کا شہر تھا۔ کبھی یہ شہر پورے پاکستان کا دل یعنی اس کا دارالحکومت تھا۔ مگر جنرل ضیا الحق کی پیدا کردہ ایم کیو ایم نے کراچی کو دہشت گردوں، بھتا خوروں اور بوری بند لاشوں کا شہر بنادیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے پیدا کردہ ’’سیاسی کلچر‘‘ کو دیکھ کر آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا تھا کہ یہ شہر بہت جلد کچرے کا شہر، اُبلتے ہوئے گٹرز کا شہر، ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا شہر اور بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کا شہر ضرور بنے گا۔ دہشت گردی، بھتا خوری اور بوری بند لاشوں کی سیاست سے کراچی میں روشنیوں، پھولوں اور خوشبوئوں کا تجربہ نمودار نہیں ہوسکتا تھا۔ الطاف حسین میں کامل تباہی اور ایم کیو ایم میں کامل بربادی پوشیدہ تھی۔ مگر یہ کراچی کی تباہی اور بربادی کے بارے میں پوری بات نہیں۔ ایم کیو ایم نہ خود پیدا ہوئی نہ خود محفوظ رہی نہ وہ اس وقت اپنے قائم کیے ہوئے حصار میں سانس لے رہی ہے۔ ایم کیو ایم کا کوئی گروپ اسٹیبلشمنٹ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ خواجہ میر درد کا شعر ہے۔
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ہمارے زمانے کو معاشیات کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ سرمائے کا عہد کہا جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ دنیا کا کعبہ معیشت ہے یا سرمایہ اور کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ دنیا واقعتاً معیشت اور سرمائے کی دنیا بن گئی ہے۔ فرد ہو یا گروہ، جماعت ہو یا قوم ہر دائرے میں معیشت اور سرمائے کا طواف ہورہا ہے مگر بدقسمتی سے کراچی میں معیشت اور سرمایہ بھی کام نہیں کر رہا۔ کراچی قومی آمدنی کا 70 فی صد اور صوبائی آمدنی کا 85 فی صد مہیا کرتا ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP کا 55 سے 60 فی صد کراچی سے مہیا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معیشت اور سرمائے کے دائرے میں کراچی پورے ملک کو پال رہا ہے۔ چناں چہ کراچی کو فوجی اور سول حکمرانوں کا ’’پسندیدہ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ملک کے فوجی اور سول حکمرانوں کو کراچی سے عشق ہونا چاہیے تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کے فوجی اور سول حکمرانوں کو کراچی سے نفرت ہے۔ بلاشبہ حکمرانوں کی کراچی سے نفرت ان کے الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتی مگر حکمرانوں کی کراچی سے لاتعلقی اور ان کا عمل چیخ چیخ کر اعلان کررہا ہے کہ حکمرانوں کو کراچی سے شدید ترین نفرت ہے۔ اس سلسلے میں فوجی اور سول کی کوئی تخصیص نہیں۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں کوئی امتیاز نہیں۔ یہ تمام جماعتیں اپنی پالیسیوں اور اپنے افعال کے توسط سے کراچی پر بھونک بھی رہے ہیں اور اس پر تھوک بھی رہی ہیں۔ بعض احمق لوگ ان باتوں کو ’’خطابت‘‘ قرار دے سکتے ہیں مگر یہ خطابت نہیں ایک زندہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ملک کو 70 فی صد اور صوبے کو 85 فی صد آمدنی مہیا کرنے والے شہر کے سوا کروڑ افراد کچی آبادیوں میں آباد ہیں۔ کراچی کے ڈھائی کروڑ لوگوں میں سے سوا کروڑ لوگوں کو پانی میسر نہیں۔ کراچی کے ڈھائی کروڑ افراد کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولت فراہم نہیں۔ کراچی کی ہر گلی میں کچرے کے ڈھیر دو ڈھائی سال سے جمع ہیں۔ کراچی کی اکثر گلیوں میں گٹر اُبل رہے ہیں۔ کراچی کی شاہراہوں پر جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ اس سال عیدالاضحی پر جانوروں کی آلائشیں تک نہیں اُٹھائی گئیں۔ ایم کیو ایم کا میئر وسیم اختر کہتا ہے کہ شہر سے کچرا صاف کرنا اس کا کام نہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا ارشاد ہے کہ شہر کی صفائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت دور بیٹھی ہوئی کراچی کے ڈھائی کروڑ لوگوں کی اذیت ناک زندگی کا صرف ’’مشاہدہ‘‘ فرما رہی ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کیا معیشت اور خارجہ امور میں بھی ٹانگ اڑانے کا شوق ہے۔ مگر کراچی کے جہنم سے اسٹیبلشمنٹ بھی لاتعلق کھڑی ہے۔ ملک کا حقیقی دفاعی بجٹ کسی کو معلوم نہیں مگر رواں مالی سال میں دفاع کے لیے ایک ہزار 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ اس رقم میں 8 کھرب 40 ارب یا کم از کم 7 کھرب 20 ارب روپے کراچی سے فراہم ہوئے ہیں۔ اس طرح فوج کا پورا ادارہ کراچی کے Stake Holders میں سے ایک ہے۔ چناں چہ اسے کراچی کے کچرا، کچرا، اور گٹر، گٹر ہوجانے پر تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے اور کراچی کے حالات کی بہتری کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ سنا ہے کہ جنرل باجوہ کراچی آتے رہتے ہیں اور ایک آدھ میٹنگ میں انہوں نے کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں کو ٹیکس دینے پر مائل بھی کیا ہے، مگر حیرت ہے کہ انہیں کراچی میں کچرے کے پہاڑ نظر آئے ہیں نہ انہیں کراچی کی گلی گلی میں اُبلتے ہوئے گٹرز کی اطلاع ہے، نہ وہ کراچی کی قلت آب پر مطلع ہیں۔ کیا کراچی کے مسائل و مصائب نے سلیمانی ٹوپی اوڑھی ہوئی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ مسئلہ یہ نہ ہو وہ ہو جس کا ذکر سلیم احمد نے اپنے اس شعر میں کر رکھا ہے۔
زمین والوں کی مشکلوں کو سمجھ سکیں گے نہ عرش والے
کہ آسماں سے زمیں کی اوپر نگاہ پڑتی ہے طائرانہ
بلاشبہ عرش اور فرش میں بڑا فاصلہ ہے۔ بیچارے عرش والوں کو کیا معلوم کہ فرش والوں کے مسائل کیا ہیں؟ ایسا نہ ہوتا تو عرش والوں کے لیے فرش والوں کے مسائل حل کرنا بہت ہی آسان ہے۔ کیوں نہ پورے کراچی کو ’’Cantonment‘‘ کا درجہ دے دیا جائے۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد کراچی ’’انسانوں کا شہر‘‘ بن جائے گا اور تاریخ میں اسے ’’Problem Free‘‘ شہر کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
قومی نقطہ نظر سے بھی کراچی غیر معمولی شہر ہے اور اس کے مقابلے پر ملک کے تمام شہر کچھ بھی نہیں۔ اس کی وجہ ہے۔ لاہور صرف پنجابیوں کا شہر ہے، لاڑکانہ صرف سندھیوں کا شہر ہے، پشاور صرف پٹھانوں کا شہر ہے، کوئٹہ بلوچوں کا شہر ہے، مگر کراچی پنجابیوں کا بھی شہر ہے، پٹھانوں کا بھی شہر ہے، کراچی مہاجروں کا بھی ہے اور سندھیوں کا بھی، بلوچوں کا بھی اور سرائیکیوں کا بھی۔ اسی لیے کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر ایم کیو ایم ہو یا تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ یا اسٹیبلشمنٹ کسی کو کراچی کے منی پاکستان ہونے پر نہ فخر ہے، نہ ان کی نظر میں اس حوالے سے کراچی کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی کے سلسلے میں ایم کیو ایم، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار مجرمانہ ہے۔ اس لیے کہ تمام قوتیں کراچی کو منی پاکستان ہونے کی سزا دینے پر لگی ہوئی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں پنجابی، مہاجر، پٹھان، سندھی اور فوجی ہونا فائدے کا سودا ہے مگر ’’پاکستانی‘‘ ہونا سراسر خسارے کا کاروبار ہے۔
کراچی کبھی ملک کا دارالحکومت تھا، چناں چہ کراچی ملک کا سب سے منظم شہر تھا مگر اب 1992ء سے کراچی ’’ماسٹر پلان‘‘ کے بغیر تعمیر ہورہا ہے۔ چناں چہ کراچی غالب کے اس مصرعے کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
کراچی کا حال مندرجہ ذیل مصرعے کی طرح ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے ’’ہر صورت‘‘ خرابی کی
ملک کی اعلیٰ عدالت کہہ چکی ہے کہ کراچی میں عمارتیں اس طرح بنائی گئی ہیں کہ اگر شہر میں بڑا زلزلہ آگیا تو 50 لاکھ سے ایک کروڑ افراد مارے جائیں گے۔ چوں کہ کراچی کسی ماسٹر پلان کے بغیر تعمیر ہورہا ہے اس لیے شہر میں معمول سے ذرا سی زیادہ بارش ’’شہری سیلاب‘‘ Urban Flooding کی صورت حال پیدا کردیتی ہے۔ شہر کی درجنوں بستیاں نشیب میں آباد کردی گئی ہیں۔ چناں چہ بارشوں سے ان کا متاثر ہونا طے ہے۔ کراچی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کراچی کے وسائل سے پورا ملک اور پورا صوبہ چلتا ہے مگر تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کو بھکاری بنا کر کھڑا کیا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے علی زیدی نے کراچی کو صاف کرنے کی نام نہاد مہم کا آغاز کیا تو چندے کے لیے ہاتھ پھیلادیا۔ حالاں کہ کراچی کو اس کے مہیا کیے ہوئے وسائل سے اس کا حصہ ملنا چاہیے۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال میں 5500 ارب روپے جمع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایف بی آر یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو اس رقم میں سے کراچی کا حصہ 3000 ارب روپے ہوگا۔ کیا کراچی کا یہ حق نہیں کہ جب تک کراچی رہنے کے لائق شہر نہ بن جائے اس رقم میں سے ہر سال کراچی کو کم از کم 500 ارب روپے فراہم کیے جائیں۔ کراچی کے بڑے بڑے مسائل حل ہوجائیں تو بیشک کراچی کو کم رقم دی جاسکتی ہے۔ مگر پی ٹی آئی ہو یا پیپلز پارٹی، نواز لیگ ہو یا اسٹیبلشمنٹ کوئی کراچی کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ’’بدترین‘‘ ظلم ہے اور ظلم ظالموں کی دنیا ہی نہیں آخرت کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے۔