سہولت کاری

151

عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے درست فرمایا ہے کہ جب جھوٹ اور سچ کا سنگم ہوتا ہے تو نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ گواہان کی جھوٹی شہادتیں بے گناہ کو گناہ گار اور گناہ گار کو بے گناہ ثابت کردیتی ہیں جو نظام عدل کو بے توقیر کردیتا ہے۔ عوام کا اعتبار بھی مجروح ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تباہ کن بات یہ ہے کہ عدلیہ اپنا اعتبار کھودے تو ’’زما ٹوپک زماقانون‘‘ یعنی میری بندوق میرا قانون کی رویات زندہ ہونے لگتی ہے جس سے بدامنی اور لاقانونیت کی جڑیں مضبوط ہونے لگتی ہیں۔ چیف صاحب کے ارشادات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ گواہان کو جھوٹ بولنے اور وکلا کے رٹے رٹائے بیان اگلنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا جو شخص مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے وہ کتنا ہی فاسق و فاجر ہو مگر قرآن کریم کا احترام اس کے لہو میں شامل ہوتا ہے۔ ہم نے ایسے بہت سے عادی جرائم پیشہ افراد دیکھے ہیں جو کسی بھی قیمت پر قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولتے مگر ہماری عدالتوں میں قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ بیان لینے کی رویات دم توڑ چکی ہے۔ گواہ صرف یہ کہتا ہے کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی عدالت ہو جو گواہان سے مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ بیان نہ لیتی ہو۔ ہماری عدالتوں میں گواہان کو جو رعایت دی جاتی ہے وہ سہولت کاری کی بدترین مثال ہے جس نے نظام عدل کو نظام نقل بنادیا ہے۔
ہم نے بارہا انہی کالموں میں کہا ہے کہ اگر عدلیہ کے چودھری چاہیں تو ’’نظام عدل‘‘ سدھر سکتا ہے۔ کسی بھی عدالت سے نقل لینا ایک انتہائی مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے مگر شاباش ہے بہاولپور کی عدالتی انتظامیہ کی کہ وہ اس معاملے میں ایسا اصلاحی اور قابل تحسین نظام لائی ہے کہ سائل کا وقت اور پیسا ضائع ہونے سے بچ گیا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ نقل فارم نقول برانچ میں جمع کرایا جاتا تھا، وہاں سے دس بارہ دن کی تاریخ ملتی تھی اور پھر تاریخ پر تاریخ کا ابلیسی چکر چلایا جاتا تھا اور اکثر اوقات یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا تھا جب تک نقل کا طلبگار ان کی طلب کے سامنے سرنگوں نہیں ہوجاتا مگر اب یہ ہوتا ہے کہ نقل فارم جمع کرانے جائو تو وہاں سے نقل تیار ہونے کی تاریخ دی جاتی ہے اور اس تاریخ سے ایک دن پہلے مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی نقل تیار ہوچکی ہے وصول کرلیجیے گویا! اصلاح نیک نیتی سے کی جائے، قوم کی خدمت، اپنے فرائض اور ذمے داری کو دیانت داری سے سرانجام دینے والے اپنے حلف کی پاس داری کریں تو ’’بٹھل‘‘ اٹھانے والے کسی مشکل کا شکار نہ ہوں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ حلف اٹھانے والوں کو کرنسی اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے تو وہ کوئی کام ہی نہیں کرتے۔
گزشتہ دنوں سیشن کورٹ بہاولپور میں بھرتیاں ہوئیں تو سینئر جج نے سفارش اور رشوت کے بغیر میرٹ پر تقررنامے جاری کیے جو سب کے لیے باعث حیرت تھے۔ بہاولپور کا نابینا شاعر ظہور آثم ہائی کورٹ بہاولپور کا سابق ملازم ہے۔ بینائی تنگ کرنے لگی تو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ 2011ء سے اپنے بیٹے جنید آثم کے لیے ملازمت کی درخواستیں دے رہا ہے۔ بہاولپور ہائی کورٹ سے سلیکیشن ہوجاتی ہے مگر لاہور ہائی کورٹ سے عین وقت پر اس کا نام حذف کردیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ظہور آثم ہائی کورٹ بہاولپور کا سابق ملازم سہی مگر اب تو معذور ہے۔ اس کے بیٹے کو ملازمت دینے کا مطلب خسارے کا سودا کرنا ہے اور وطن عزیز میں خسارے کا سودا حماقت سمجھا جاتا ہے۔ سیشن کورٹ بہاولپور نے اس کی درخواست اس لیے مسترد کردی تھی کہ اس کی عمر تیس سال چار ماہ تھی اس بار بھی اس نے درخواست دی ہے اور ظہور آثم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور سابقہ سلوک پر معذرت بھی کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعی! یہ خسارے کا سودا ہوجائے گا۔