سی پیک کی ’’پیکنگ‘‘ کا افسانہ

380

سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ایک منظم مہم کے دوران اب پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جینگ نے تاجروں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین سی پیک پر کام کی رفتار سے مطمئن ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت کا دوسرا مرحلہ اگلے ماہ حتمی شکل اختیار کرے گا جس کے بعد پاکستان کی زرعی پیداوار اور سی فوڈ سمیت نوے اشیا پر صفر ڈیوٹی ہوگی جس سے تجارت متوازن کرنے میں مد د ملے گی۔ چینی سفیر کی اس وضاحت سے پاک چین تعلقات کے حوالے اسے سوشل میڈیا پر اُڑائی جانے والی گرد بڑی حد تک بیٹھ جائے گی۔ گزشتہ عرصے میں یہ خبریں بہت منظم انداز میں پھیلائی جا رہی تھیں کہ پاکستان نے امریکا کا دبائو قبول کرتے ہوئے سی پیک پر کام یا تو روک دیا ہے یا پھر اس کی رفتار سست کر دی ہے۔ رفتار کی تیزی اور سستی تو گوارا ہو سکتی تھی مگر سی پیک پر کام کی بندش کا مقصد پاکستانی عوام کو ابہام میں مبتلا کرنا تھا جس کا منطقی نتیجہ مایوسی اور بے چینی کی صورت میں برآمد ہو سکتا تھا۔ ایک عام آدمی اس منصوبے کو ایک موقع اور امکان سمجھ رہا ہے اور پاکستان نے اس منصوبے کے لیے اپنے گردوپیش سمیت زمانے بھر کی مخالفت مول لیے رکھی ہے۔
پاکستان پر حالیہ برسوں میں ٹوٹ پڑنے والے بہت سے عذابوں کا سرا گوادر کی بندرگاہ سے جاملتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد تو ان افواہوں نے زیادہ منظم اور منصوبہ بند طریقے سے پھیلنا شروع کر دیا۔ ان افواہوں کے ساتھ ایک زخم خوردہ سیاسی طبقہ اس موقف کے ساتھ سامنے آیا کہ ماضی قریب کی سیاسی اتھل پتھل کا اصل مقصد تو یہی تھا کہ سی پیک کو ختم کیا جائے۔ اپوزیشن کی دو جماعتیں بھی سی پیک کا سہرا اپنی قیادتوں کے سر باندھ اس کی پیکنگ کے تاثر کو ہوا دینے لگیں۔ ایک افواہ تو یہ بھی اُڑی کہ سی پیک کے منصوبوں کا تعمیراتی سامان پیک کر کے واپس بھیجا جانے لگا ہے۔ ان ساری افواہوں کا منبع بے لگام سوشل میڈیا تھا اور پھر کچھ جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل ان افواہوں پر مشتمل پوسٹوں کو عبادت سمجھ کر پھیلاتے تھے۔ اس معاملے میں خرابی کی بنیاد اس وقت پڑی تھی کہ جب وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک کے منصوبوں کو دوسال کے لیے موخر بھی کیا جا سکتا ہے۔ رزاق دائود کے اس بیان کو امریکا کو خوش کرنے اور چین کو ناراض کرنے کی دانستہ کوشش بھی کہا گہا تھا اور اسے سی پیک کے خاتمے کی گھنٹی بھی سمجھا گیا تھا حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کے حوالے سے گومگو کی کیفیت کا شکار تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ پاکستان کو سی پیک کے قرض اتارنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض دینے کی مخالفت کریں گے اور امریکا اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ امریکا کے اسی دبائو کو ٹالنے کے لیے وزیر تجارت نے اہتمام کے ساتھ امریکی اخبار کو یہ انٹرویو دیا ہے۔ بعد میں امریکا کا دبائو تو واقعی کم ہوا مگر حکومت شکوک وشبہات کی زد میں آگئی۔ خود عوامی جمہوریہ چین نے بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا پاکستان کی نئی حکومت کو سی پیک کے منصوبوں پر نظرثانی کا اختیار ہے۔ چین نے کسی مرحلے پر یہ تاثر نہیں دیا کہ پاکستان کسی دبائو میں آکر سی پیک کے کام کی رفتار سست کر رہا ہے اور چین اس خوش نہیں۔ چین نے افواہوں کے طوفان میں پاکستان کے فیصلے کے حق کا احترام اور دفاع کیا۔ چینی قیادت کو اندازہ تھا کہ نہ تو سی پیک کے زیر کار منصوبے پاکستان کو معاشی دلدل سے فوری طور پر نکال سکتے ہیں اور نہ چین فوری طور پر تمام معاشی مسائل حل کر سکتا ہے۔ یہ مسائل صرف آئی ایم ایف ہی کسی حد تک حل کر سکتا ہے۔ چین کو امریکا کی مخالفت اور پاکستان کی مشکلات کا بھی اندازہ تھا۔ اسی لیے کچھ عرصہ سے سی پیک پاکستانی میڈیا سے غائب سا ہوگیا ہے۔
ماضی میں سی پیک کی زمین سے زیادہ میڈیا پر دھوم مچی رہتی تھی جس سے ایک عام پاکستانی کی امیدوں کا گراف بہت بلند رہتا تھا اور اسے یہ خوش فہمی رہنے لگی تھی کہ سی پیک ایک چھومنتر کی طرح ان کے تمام معاشی مسائل کو حل کر دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ سی پیک ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے جس کے دیرپا اثرات آنے والے ماہ وسال ہی میں سامنے آسکتے ہیں۔ میڈیا میں سی پیک کا ذکر غائب ہونے سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ پاکستان نے امریکا کے دبائو اور آئی ایم ایف کی فرمائش پر سی پیک کی پیکنگ شروع کر دی ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی اور تعلق باہمی بقا اور باہمی احترام کی بنیاد پر کھڑی رہی۔ چین نے پاکستان کو اپنے اصل رنگ اور رخ کے ساتھ دوست بنایا اور رکھا ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے پاکستان کو ایک مخصوص شبیہ اور شباہت کے ساتھ دوست رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ گویا کہ پاکستان تہذیب ونظریات تک امریکنائز ہو تو دونوں کی دوستی چل سکتی ہے۔ یہ زاویۂ نظر پاکستان اور امریکا کے درمیان مسائل اور مشکلات کا باعث بنتا رہا ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی حکمرانوں کے چہروں مہروں اور سیاسی ضرورت سے ماورا رہی ہے۔ چونکہ دونوں کی بقا ایک دوسرے سے جڑے رہنے میں ہے اس لیے چھوٹے موٹے معاملات اس بڑی حقیقت اور تاریخی سچائی پر غالب نہیں آسکے۔ آنے والے دنوں میں دونوں کو مشترکہ چیلنج کا سامنا کرنے پڑسکتا ہے۔ چینی سفیر نے ایک اہم موڑ پر سی پیک کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرکے یہ بات واضح کردی ہے کہ اصل حقیقت سوشل میڈیا پر گم نام عناصر اور سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی تراشی گئی افواہوں سے قطعی برعکس ہے۔ سی پیک کے منصوبوں کو میڈیا سے نکالنے یا اس کی رفتار دھیمی کرنے کا اگر کوئی عمل ہوا بھی ہے تو یہ پاکستان اور چین کی باہمی مشاورت کا نتیجہ ہوگا۔ امریکا سے ربط وتعلق برقرار رکھنا پاکستان کی ضرورت تو ہو سکتی مگر یہ چین کی ناراضی کی قیمت پر نہیں ہوسکتا۔