پنجاب حکومت نے اے ٹی ایم اسکینڈل صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیکر ایس ایچ او سمیت 3ملزمان پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس سے قبل صلاح الدین کے والد محمد افضال کا بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو خود غسل دیا تھا اس کے جسم پہ تشدد کے واضح نشانات تھے لہٰذا انہوں نے حکومت سے ان کے بیٹے کی قبرکشائی کرکے جوڈیشل کمیشن کی نگرانی میں دوبارہ پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔ محمد افضال کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا صلاح الدین ذہنی طور پر معذور تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے اس کے بازو پر نام اور ایڈریس کندہ کروایا ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یکم ستمبر 2019 کو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا صلاح الدین پولیس حراست میں ہلاک ہوگیا ہے اور جب انہوں نے ضلع رحیم یار خان تھانہ سٹی اے ڈویژن سے رابطہ کیا تو انہیں اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ بعدازاں وہ اپنے بھتیجوں محمد نواز اور ہارون امتیاز کے ہمراہ رحیم یار خان آئے جہاں پہنچ کر انہیں علم ہوا کہ سٹی اے ڈویژن پولیس نے صلاح الدین کو چوری کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا جہاں وہ پولیس کے مبینہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا ہے۔ صلاح الدین کے بارے میں اس کے غریب اور لاچار باپ کا کہنا ہے کہ ان کے معذور بیٹے کی لاش کو جب غسل دیا جارہا تھا تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پہ تشدد کے نشانات موجود نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس معذور انسان نے آخر ایسا کون سا جرم کیا تھا جو پولیس اس بدترین تشدد کے ذریعے اس سے اگلوانا چاہتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین پر اے ٹی ایم مشینیں توڑ کر ان سے رقم چوری کرنے کا الزام تھا۔ اگر صلاح الدین پر واقعی ایسا کوئی الزام تھا تو کیا پولیس نے اسے کسی عدالت کی روبرو پیش کر کے ریمانڈ کی اجازت طلب کی تھی اور ایسے کسی بھی ریمانڈ سے پہلے کیا صلاح الدین کا کسی ڈاکٹر سے طبی معائنہ کرایا گیا تھا اگر ان دونوں سوالات کے جوابات اثبات میں ہیں تو پھر پولیس کے ساتھ ساتھ اس معزز جج اور ڈاکٹر کو بھی صلاح الدین کے قتل کے الزام میں شامل تفتیش کرنا چاہیے جن کی مبینہ غفلت اور عدم توجہ سے ذہنی طور پر ایک معذور شخص پولیس تشدد سے اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ اگر پولیس شروع ہی میں اس بات کا ادراک کر لیتی کہ صلاح الدین ذہنی طور پر معذور ہے تو پھر شاید وہ تفتیش اور جرم اگلوانے کے لیے بد ترین تشدد کے اپنے روایتی ہتھکنڈوں کے بجائے کوئی اور آپشن اپناتی لیکن ہم چونکہ ایک بے حس اور تعفن زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں اس لیے ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات کو کچھ زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا ورنہ اگر اس کے برعکس ہوتا تو اب تک اس واقعے پر پورے ملک میں ایک بڑا بھونچال آ چکا ہوتا۔ صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص اس طرح کے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں۔ دراصل ہماری اسی اجتماعی بے حسی نے ہمیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے نہ تو کسی شریف شہری کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی ریاستی ادارہ ان کی جانوں کا تحفظ قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک سابق آفیسر عزیز اللہ خان نے صلاح الدین کی المناک موت کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر اپنے ایک پوسٹ میں پولیس کے رویوں اور کارکردگی کو ’’کالی بھیڑیں اور سفید بھیڑیے‘‘ کا عنوان دے کر وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو دوران ملازمت کہنے کا شاید وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے۔ عزیزاللہ خان کے بقول انہوں نے اپنی سینتیس سالہ سروس میں نہ ایسی تفتیش دیکھی نہ سُنی کہ ایک ایسا مجذوب لڑکا جس نے اے ٹی ایم مشین سے اپنا کارڈ نکالتے ہوئے ایک دفعہ کیمرے اور دوسری دفعہ مشین کا مُنہ چڑا کر اپنی ذہنی معذوری ساری دنیا پر آشکارہ کی ہو کو پولیس نے ایک بڑا ڈاکو بنا کرپیش کیا ہو۔ یاد رہے کہ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر صلاح الدین کی اس حرکت کو صارفین نے مزاح کے طور پر انجوائے کیا تھا لیکن پھر خبر چلی کہ فیصل آباد میں واردات کے بعد وہ ڈاکو رحیم یار خان پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جس کے خلاف نہ صرف پورے پنجاب میں مقدمات درج ہیں بلکہ یہ ایک بین الاضلاعی گروہ کا رکن بھی ہے۔ دوران تفتیش ویڈیو میں اُس ڈاکو کو پولیس اہلکار اُلٹی ہتھکڑی لگا کر جس طرح پیچھے سے کھینچتا ہے اور صلاح الدین جس اذیت سے گزرتا ہے وہ اس ویڈیو میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ عجیب ڈاکو تھا جس نے اپنا نام پتا اور ٹیلی فون نمبر تک اپنی کلائی پر درج کیا ہوا تھا۔ ایسا ڈاکو توکسی نے شاید فلموں میں بھی نہیں دیکھا ہوگا جو واردات کرتے ہوئے اے ٹی ایم مشین توڑ کر اس سے پیسوں کے بجائے نہ صرف محض اپنا کارڈ نکالنے پر اکتفا کرتا ہے بلکہ اس نے اپنا چہرہ بھی نہیں چھپایا۔ حتیٰ کہ وہ کیمرے کو اپنا درشن دینا بھی ضروری سمجھتا ہے اتنے ڈیٹ ڈاکوکا کردار تو شاید کسی الف لیلوی داستان میں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا مگر شاباش ہے رحیم یار خان پولیس کے دلیر افسران اور جوانوں پر جو اس مخبوط الحواس اور عجیب الخلقت ڈاکو سے نہ صرف چوری شدہ کروڑوں اربوں روپے بلکہ وہ اے ٹیم ایم مشینیں بھی برآمد کرنا چاہتے تھے جن کا حقیقت سے دور کابھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔