کتاب اپنی ضخامت کے اعتبار سے انسائکلو پیڈیا دِکھتی ہے تو اپنے ظاہری حسن کے اعتبار سے کوئی خوبصورت البم اور عنوان سے تصوف کے رازوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی اہل سلوک کی محفلوں کی کوئی روداد معلوم ہوتی ہے۔ بالکل صاحب ِ کتاب کی تصویر اور شخصیت کی طرح یوں ایک دھوکا سا لگ جاتا ہے کہ پہلی نظر میں پچاس پچپن برس کی کوئی شخصیت دکھائی دیتے ہیں مگر کتاب پڑھیں کہ تو راز کھلتا ہے کہ حضرت عمرِ عزیز کی اٹھتر بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ جس پر صرف ماشاء اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ذکر ہورہا ہے ملک کے معروف صحافی روزنامہ جرات، تجارت، اخبار خواتین سمیت بہت سے اخبار ات کے مالک ومدیر جناب جمیل اطہر قاضی کی خود نوشت کا، جو حال ہی میں ’’دیار مجدد سے داتا نگر تک‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔ کمال محبت سے انہوں نے ایک نسخہ مجھے بھی ارسال کیا۔ جمیل اطہر کا ذکر ِخیر مدتوں پہلے اپنے والد کے کزن اور اس دور کے بزرگ اخبار نویس کی زبانی سنا جو جرات کے ساتھ بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر وابستہ تھے۔ یہ غالباً 1989,90 کی بات ہے۔ میں ابھی طالب علم ہی تھا کہ صحافت کا شوق چرانے لگا تھا اور یوں انکل ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے دستخط سے اعزازی نامہ نگاری کا خط بھی حاصل کیا اور شوقیہ مضمون نگاری کا زبانی اجازت نامہ بھی۔ سو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس پر ایک تجزیاتی مضمون جرات کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا۔ برائے تبصرہ وملاحظہ والد صاحب کو تھمایا جنہوں نے پڑھنے کے بعد مضمون کے نیچے ’’اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ‘‘ کے نوٹ کے ساتھ سو روپے کا نوٹ رکھ کر اخبار واپس لوٹایا۔ جمیل اطہر قاضی اور ان کے اخبار کے ساتھ وابستہ یہ خوبصورت یاد تین عشروں سے لوح حافظہ پر تازہ ہے۔
جمیل اطہر کی خود نوشت ایک فرد کی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد سے ایک پورے عہد ِصحافت وسیاست کی داستان ہے۔ یوں تو کتاب کا حرف حرف اور سطر سطر مزیدار ہے کہ پڑھنے کے بعد بھی کچھ دیر کے لیے زبان پر ذائقہ برقرار رہتا ہے مگر نشہ اس وقت دو آتشہ ہوتا ہے جب آپ تھوڑی بہت شدبد رکھتے ہوں کہ حمید نظامی ومجید نظامی، ارشاد حقانی کون تھے؟ مصطفی صادق اور شورش کاشمیری کون تھے؟ مجیب الرحمان شامی اور ہارون الرشید کا صحافتی ٹیک آف کیسا تھا؟ ایک نامہ نگار کی پیشہ ورانہ زندگی کیا ہوتی تھی اور ایک مالک کو صبح اخبار مارکیٹ تک لانے میں کن مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا؟ جمیل اطہر اپنے عہد کے معروف صحافی عبدالکریم عابد مرحوم کی خود نوشت ’’سفر آدھی صدی کا‘‘ کے بعد کارکن صحافی سے ایڈیٹر تک کا سفر طے کرنے والے دوسر ے فرد ہیں جن کی آپ بیتی میں بے ساختہ پن ہے اور یہ کسی تصنع اور بناوٹ کے میک اپ سے آزاد اور خالی ہے۔ تصویروں سے مزین میں ان کے صحافتی سفر کی یادگار تصویریں شامل ہیں۔ جمیل اطہر مالکان اخبات کی تنظیم اے پی این ایس کی سیاست میں بہت سرگرم ہیں اور کتاب میں بادشاہ گروں اور سیاست کے نبض شناسوں کی اپنی سیاست کا احوال بھی پڑھنے کی چیز ہے۔ کتاب میں انہوں نے اپنے کئی احباب اور اس سفر کے بچھڑ جانے والے ساتھیوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ جمیل اطہر ریاست پٹیالہ کے شہرسرہند میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بہت تھوڑا عرصہ ہی سر ہند میں گزار پائے کیونکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ان کے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی۔ سرہند مجدد الف ثانی کے حوالے سے اسلامیان برصغیر کے لیے خاص قدر ومنزلت کا حامل شہر ہے۔ جمیل اطہر کا گھرانہ مجددالف ثانی کے مزار سے انتظام وانصرام کے حوالے سے وابستہ تھا۔ جمیل اطہر نے شعور کی آنکھ پاکستان ہی میں کھولی مگر سرہند ان کے نہاں خانہ دل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ ’’میری کہانی‘‘ کے نام سے لکھے گئے باب میں جمیل اطہر اپنی زندگی کا مختصر جائزہ یوں لیتے ہیں ’’11مئی 2019 کو میری عمر عزیز کے اٹھتر برس بیت چکے ہیں اس میں سے کم وبیش چونسٹھ برس کا عرصہ صحافت کی وادیٔ
پُرخار میں گزرا۔ اخبار فروش، نامہ نگار اور نیوز ایجنٹ رہا۔ اخبارات میں ملازمت کی بطور سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، اسٹاف رپورٹر۔ پھر 25مئی 1959کو مصطفیٰ صادق کے اشتراک سے اپنا ہفت روزہ وفاق لائل پور جاری کیا جو 1962 میں روزنامہ وفاق لائل پور بن گیا۔ قریباً بائیس سال مصطفیٰ صادق کی معیت میں کام کیا‘‘۔ اپنے آبائی شہر سرہند کا ذکر ’’اللہ والوں کی سرزمین‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں یوں کرتے ہیں ’’سرہند کو فقیروں اور درویشوں کی دنیا میں ہمیشہ قدر ومنزلت کا مقام حاصل رہا ہے۔ یہ اللہ کے وہ برگزیدہ بندے تھے جنہوں نے سیکڑوں سال تک اس سرزمین میں نیکی اور پاکیزگی کے بیج بوئے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کا مقدس فرض ادا کیا‘‘۔ ’’پٹیالہ کی خون آشام گلیاں‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں انہوں نے ان لمحوں کا ذکر کیا ہے جب انسان انسان کے لہو کا پیاسا ہوگیا تھا اور انسانیت منہ چھپاتی پھر رہی تھی۔ جمیل اطہر اور ان کے خاندان کا اس طوفان سے بچ نکل کر زندہ وسلامت پاکستان پہنچنا معجزے سے کم نہیں۔ ان کے گھر والوں نے دکانوں کے آگے تخت کے نیچے نالیوں میں چھپ کر خود کو ایسے عالم میں بچایا جب سامنے بے گور وکفن لاشوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ انہی دلدوز مناظر پر امرتا پریتم بھی یوں چیخ پڑیں تھیں ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں توں قبراں وچوں بول‘‘۔
پٹیالہ کی قتل گاہوں سے پاکستان کی پرامن فضائوں تک کے اس سفر کو انہوں نے ’’دارلفساد سے دارالامن‘‘ تک کا نام دیا ہے۔ اس عنوان سے لگتا ہے کہ پاکستان پہنچ کر انہوں نے ایک سکون اور اطمینان کا سانس لیا ہے۔ ہجرت کا ابتدائی زمانہ انہوں نے ٹوبہ فیصل آباد اور گوجرہ، سرگودھا میں گزارا۔ ایک کاروباری گھرانے سے تعلق کے باجود وہ صحافت کے شوق میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس شعبے میں جن مشکلات میں انہوں نے زندگی گزاری ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ صحافت ان کا شوق نہیں بلکہ جنون بن گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اخبارات کو خبریں بھجوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ ڈا ک خانے سے لفافے میں بند کرنے سے ٹیلی گرام آفس سے خبریں بھیجنے کے سلسلہ ٹیلی فون کی ٹرنک کال پھر ڈائریکٹ ڈائلنگ تک چلتا چلا گیا اور پھر فیکس کے آتے ہی یہ نمائندوں اور نامہ گاروں کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ جمیل اطہر نے جو کہانی بیان کی ہے آج کے رپورٹر اور نامہ نگار شاید اس پر یقین بھی نہ کریں مگر یہ ایک دور کی حقیقت تھی اور میں نے ان دو اداوار یعنی عہد کہن اور مابعد انقلاب کے سنگم سے صحافت کا آغاز کیا اس مشاہدے کی وجہ سے جمیل اطہر کی کہانی کا کچھ زیادہ لطف محسوس کیا۔ مصطفی صادق اور وفاق اخبار ان کا اصل صحافتی عشق اور جوبن کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں انہیں حسین شہید سہروردی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، خان عبدالغفار خان، ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مفتی محمود اور مولانا درخواستی سمیت بہت سے سیاست دانوں کو قریب سے دیکھنے اور خیالات معلوم کرنے کا موقع ملا۔ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق کے قتل کو انہوں نے قریب سے دیکھا اور بطور نیوز ایڈیٹر اس خبر پر ’’یہ کس کی لاش ہے؟‘‘ کی سرخی جمائی۔ جمیل اطہر خواجہ رفیق کے بچوں سعد رفیق اور سلمان رفیق کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان کرتے ہیں۔ ’’خواجہ محمد رفیق ایک بار نوابزادہ نصراللہ کے پاس موجود تھے۔ دس دس بارہ بارہ سال کے دوبچے بھی ان کے ساتھ تھے یہ کافی شریر اور ذہین اور بچے تھے۔ نواب صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ دونوں بچوں نے کہا سیاست دان تو ہرگز نہیں بنیں گے، نواب زادہ نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ آپ کے والد تو خود سیاست دان ہیں۔ دونوں بچوں نے بیک آواز کہا ہمارے والد تو گھر آتے ہی نہیں کبھی جلسے میں ہوتے ہیں کبھی جلوس میں تو کبھی جیل میں ہم تو ایسی سیاست سے باز آئے۔ وائے تقدیر یہ دونوں بھائی سعد وسلمان نہ صرف سیاست میں آئے اور جلسے جلوس کرنے کے بعد ان دنوں جیل میں بھی ہیں۔ جمیل اطہر کی خود نوشت پاکستانی صحافت کے آغاز وارتقا کے بعد ترقی کے سفر میں پر لگا کر اُڑنے کی کہانی ہے۔ صحافت کے طالب علموں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔