ہم جبر کے ایسے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں اس ملک اور اس ملک میں رہنے والوں کے مفادات ہنسی ٹھٹھے میں اڑائے جارہے ہیں۔ کتنا ہی ناراضی یا عدم اطمینان کا اظہار کریں، دلائل کے انبار لگادیں کہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس ماحول میں دل یہ کرتا ہے کہ ان تمام اداروں کو اس پاک سر زمین سے کھرچ کر پھینک دیا جائے جن کے سربراہوں اور اعلیٰ قیادت نے اپنے اسفل مفادات کے لیے اس ملک کو اس عہد، اسلام اور اعلیٰ روایات سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ اقتدار کے دانشوروں کی اپنی ہی منطق ہے، اپنے ہی معیار ہیں۔
ایسے میں جب اس ملک کو جنس تجارت بنادیا گیا ہے کوئی اصولی بات، مسئلے کو سمجھنے اور سلجھانے والی بات کان میں پڑتی ہے تو یقین نہیں آتا۔ وہم سا محسوس ہوتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ’’سیاسی انجینئرنگ کے لیے احتساب کے عمل میں یکطرفہ جھکائو کا تاثر اور اختلافی آواز دبانا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہریوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ایک اچھا عمل ہے لیکن غیر جانبداری کے بغیر یہ اقدام معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ہے‘‘۔ اس ملک میں اصولی باتیں عموماً ریٹائرمنٹ کے بعد کی جاتی ہیں۔ برسر اقتدار ہوں ملک دائو پر لگ جائے ہم مادے کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں اور نہ کسی صداقت پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی کاوش نظر بھی آتی ہے تو وہ محض بات برائے بات ہوتی ہے۔ ہمارا برسر اقتدار طبقہ عصر حاضر کی اصطلاحات اور دانش کا استعمال تو کرتا ہے لیکن محض دانشور بننے کے لیے۔ میں بہ تکلف بھی یہ لکھنے کے لیے تیار نہیں کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ایسے نہیں ہیں، ایک نایاب آدمی ہیں۔ نایاب لوگ اب اس ملک کے نصیب میں نہیں۔
سیاسی انجینئرنگ نے اس ملک کو بہت دکھ دیے ہیں۔ یہ فتح مندوں کی ایک ایسی دلچسپی ہے جو اس ملک کو کمزور سے کمزور تر کرتی جارہی ہے۔ سیاسی لوگ، سیاسی فکر اور سول اقتدار ابتدا ہی سے منتخب ذمے داروں کے نشانوں پر رہے ہیں۔ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جنرل ایوب خان نے جو وحشیانہ سلوک کیا، سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے انہیں جس طرح اقتدار سے دور کیا گیا وہ اس ملک کے وقار کو خاک میں ملانے کے مترادف تھا۔ جرنیل لوگوں کو پست اور حقیر سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کی بھوکے بنگالی کے عنوان سے جس طرح تذلیل کی گئی اس کے بعد بعض اداروں کو تہذیب سیکھنے کی اشد ضرورت تھی۔ امت مسلمہ کی تاریخ کی بدترین شکست کے بعد بھی گروہ عزیز نے ایک سویلین وزیراعظم کو محض چند سال برداشت کیا پھر جس طرح اس پر طعنہ زنی کی گئی، الزام لگائے گئے، ظلم کی داستانیں جامع انسانیت لوگوں نے پیش کیں، تہمتیں لگا کر زنجیر کیا گیا پھانسی دی گئی وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کئی دن پہلے وزیر داخلہ بریگیڈئر اعجاز شاہ کا انٹرویو سنا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’2008 کا الیکشن فوج کے سابق سربراہ اور انہوں نے مل کر انجینئرکیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان معاہدہ کروایا تھا۔ جنرل کیانی نے منصوبہ بندی کی تھی کہ کس پارٹی کو کتنی نشستوں پر کامیاب کروانا ہے‘‘۔ 2018 کے الیکشن پر جمی گرد کی تہِ کب چھٹے گی۔ اس کے لیے شاید ہمیں 2030 تک انتظارکرنا پڑے گا۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو بچانے کے لیے زرخیز زمینوں کی جس طرح آبیاری کی گئی، دماغ خراب کیے گئے، حیرت انگیز آرٹ ورک کیا گیا اس ہول ناک مذاق کا کون ذمے دار تھا؟ زبان خلق پر کس کا نام تھا۔ یہ کسی سے مخفی نہیں۔ ان دنوں مسئلہ کشمیر زیادہ اہم تھا یا سنجرانی کا دوبارہ انتخاب؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
آج کل سول اور فوجی حکومت کے ایک پیج پر ہونے کا زور ہے۔ یہ برکھا پہلی دفعہ نہیں برسی۔ کسی زمانے میں نواز شریف اور بر یگیڈئر امتیاز ایک پیج پر تھے۔ بقول ان کے نوازشریف کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق تھا اور وہ نواز شریف کے ساتھ اس حد تک جڑ چکے تھے کہ اپنی ساری کشتیاں جلادی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ان ہی محترم بریگیڈئر صاحب نے آپریشن مڈنائٹ جیکال کے ذریعے محترمہ کے اراکین اسمبلی توڑنے کی کوشش کی۔ اس الزام پر انہیں فوج سے رخصت کردیا گیا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے بریگیڈئر امتیاز کو آئی بی کا چیف بنادیا۔ ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے بریگیڈئر اعجاز شاہ کام کرتے تھے۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب فوج کا انتخاب تھے اور فوج کی سیڑھیوں پر قدم بہ قدم اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔ سیاست سینہ زوروںکا خیمہ تھی جس نے جب چاہا جسے چاہا اس خیمے میں داخل ہونے کی اجازت دی اور جب چاہا نکال باہر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کس کا انتخاب تھے سب آگاہ ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ حمید گل عمران خان کے بارے میں کہا کرتے تھے ’’ضروری ہے کہ نئی قیادت ابھاری جائے کیوں کہ ہماری پرانی قیادت ناکام ہوچکی ہے۔ پرانے رہنما اپنی تلخیوں کو ختم نہیں کرسکے اور نہ ہی ملک وقوم کے لیے کچھ کرسکے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم نئی قیادت کوسامنے لائیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ نئی قیادت کو سامنے لانا کیا فوج کا کام ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا فطری ارتقا کے بغیر فوج کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار تک پہنچنا سیاست دانوں کو زیب دیتا تھا یا دیتا ہے۔ اس سوال سے جڑا ایک سوال یہ ہے کہ کیا فوج کی حمایت کے بغیر پاکستان میں ایوان اقتدار تک رسائی ممکن ہے؟ تحریک انصاف 1996 میں تشکیل دی گئی۔ 1997 کے الیکشن میں اسے کوئی سیٹ نہیں ملی۔ 2002 میں تحریک انصاف کو ایک سیٹ ملی۔ 2008 کے الیکشن کا عمران خان نے بائیکاٹ کیا۔ 2011 میں تحریک انصاف کو جنرل شجاع پاشا کا ساتھ نصیب ہوا۔ اس کے بعد تحریک انصاف مقتدروں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف کو 33سیٹیں ملیں اور 2018 میں وزارت عظمیٰ۔ عمران خان بائیس سال کی جدوجہد کے بعد ایوان اقتدار تک پہنچے۔ وہ اگلے بائیس برس تک بھی وزیراعظم نہ بن پاتے اگر انہیں فوج کی تائید حاصل نہ ہوتی۔ ان کی ناکامی کی صورت میں نئی لیڈر شپ کی تیاری کہاں کی جارہی ہے؟ کس کے لیے مشکلات پیدا کرنی ہیں؟ کس کو آسانیاں بہم پہنچانی ہیں؟ کس سیاست دان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟ کوئی جنرل کیانی کہیں فیصلہ کیے بیٹھے ہیں کس جماعت کو کتنی سیٹیں ملنی ہیں۔ کس کو وزیراعظم بننا ہے۔ فیصلہ ساز قوت ایک ہی ہے۔
کس پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے ہیں اور کس کی آواز کو کس کس طرح پابند سلاسل کرنا ہے۔ مستقبل کی اس صورت گری میں عدلیہ مقتدروں کا ہتھیار ہے۔ ججوں کو واٹس اپ میسج، چیئرمین نیب کی ویڈیو اور اس کے باوجود ان کا عہدے پر برقرار رہنا، جج ارشد ملک کا کردار، عدلیہ میں کرپشن، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس، جج بمقابلہ جج، اعلیٰ عدالتوں میں حبس، گھٹن اور انارکی۔ عدلیہ ملک کی ترقی سے ہم آہنگ ہوسکی اور نہ لوگوں کی نظر میں کسی محترم مقام پر فائز ہوسکی۔ یہ بڑی ہی دردناک صورتحال ہے کہ سیاسی انجینئرنگ میں معاون بن کر عدلیہ نے کھویا ہی کھویا ہے۔ سیاست دانوں نے بھی فوج کی معاونت سے اقتدار تک پہنچ کر کچھ حاصل نہیں کیا۔ جس طرح کسی ماہر معیشت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خارجہ امور کی باریکیوں کو سمجھ سکے اسی طرح خارجہ امور، معاشی پالیسیاں، میڈیا کے لیے حدود متعین کرنا اور ۔۔ اور ۔۔۔ اور سیاسی انجینئرنگ کرنا فوج کا کام نہیں ہے۔ فوج کی کارکردگی اس لیے بہتر ہے کہ کوئی ادارہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ دیگر اداروں کی کارگردگی بھی اسی وقت بہتر ہوسکتی ہے جب کوئی اور ادارہ ان کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ ہر ادارہ قانون کے مطابق اپنے دائرہ کار میں کام کرے۔ یادرکھیے کوئی جنازہ کبھی تنہا نہیں اٹھتا۔