وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے کراچی کی بہتری کے لیے شہر یا سندھ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آرٹیکل 149 کے تحت اختیارات حاصل کرنے کے ’’چٹکلے‘‘ نے کراچی کے لوگوں کو خوش فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بات ذاتی حیثیت میں کہی تھی اس کے باوجود شہریوں کو توقع ہے کہ وفاقی حکومت کے اہم وزیر کی تجویز پر عمل ہوجائے تو شہر کی حالت بہتر نہیں بلکہ بہترین ہوجائے گی۔ تاہم سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کا خدشہ ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک بڑا سیاسی تنازع شروع ہوجائے گا جس کے بڑھنے کے نتیجے میں وفاقی حکومت سندھ حکومت کو برطرف کرنے کے لیے بھی آئینی حق استعمال کرسکے گی اور کراچی کو کنٹرول کرنے کے بجائے پورے صوبہ سندھ کو ’’قابو‘‘ میں کرلے گی۔ ایسا کرنے سے بھی کراچی سمیت سندھ کے حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں جس سے صوبے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو کراچی کی گندگی غلاظت کا معاملہ لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل اور شہر مزید گندا ہوکر عروس البلاد کے بجائے ’’ام البلاد‘‘ کا نقشہ پیش کرنے لگے گا ، جو جدید سہولتوں سے مبرا ہوتا ہے۔
کراچی کے نظام کو بہتر بنانے کی خواہش اور کوشش کے لیے کیے جانے والے اقدامات یقینا قابل تعریف ہیں۔ لیکن اگر نئے مجوزہ نظام کو بھی پرانے بلدیاتی چہروں کے ذریعے چلایا گیا تو بھی اس کے کوئی بہتر نتائج برآمد ہونے کا امکان نہیں ہے۔ کراچی کے بلدیاتی نظام کو سودمند بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ’’کراچی کو موجودہ حالات میں پہنچانے کے ذمے دار منتخب شخصیات اور سرکاری افسران سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت کراچی کو ماڈل شہر بنانے کی خواہش رکھتی ہے اس مقصد کے لیے وہ کراچی کو ماضی میں ماڈل سٹی بنانے والی پارٹی جماعت اسلامی سے بھی مدد اور معاونت چاہتی ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ جماعت اسلامی کو وہ کراچی کو سنبھالنے کے لیے اپنی اتحادی جماعتوں خصوصاً ایم کیو ایم سے مشاورت بھی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وفاقی حکومت سے جڑے ہوئے سیاسی عناصر کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم کو وفاق کی اس تجویز سے انکار نہیں ہوا تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کراچی کو بدلنا چاہتی ہے۔ لیکن سب سے اہم امر یہ ہے کہ کیا سندھ میں موجود پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں کو قبول کرلے گی؟۔ ایک شبہ یہ بھی ہے کہ سندھ یا کراچی میں تبدیلی کے نام پر ’’تبدیلی حکومت‘‘ اپنا سیاسی وزن چیک کررہی ہے؟
اگر وفاقی حکومت کے متوقع آئینی فیصلوں پر پیپلز پارٹی نے کوئی بڑا منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا تو عمران خان کی حکومت اسے اپنی کامیابی تصور کرے گی بصورت دیگر اپنی حکومت کے خاتمے کی تیاری سمجھ کر اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرے گی۔ بہرحال موجودہ بلدیاتی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان چند روز قبل یہ بات کہہ چکے ہیں کہ نیا بلدیاتی نظام سب کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم نے بلدیاتی نظام کو تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ امکان ہے کہ یہ مجوزہ نظام سابق صدر پرویز مشرف کے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ طرز کے مطابق ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ کم ازکم کراچی کے لیے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام ایک اچھا بلدیاتی سسٹم تھا جس کی وجہ سے کراچی کو 8 سال کے دو ادوار میں ترقی کرنے کا موقع ملا۔ لیکن اس کا اصل سہرا کراچی کے سابق اور بزرگ سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو جاتا ہے۔ کراچی میں اب بھی ایسے ہی نظام حکومت کی ضرورت ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وفاقی سطح پر متعدد مرتبہ یہ غور کیا جاچکا ہے کہ کراچی کو براہ راست وفاق کی نگرانی میں لے لیا جائے۔ اس تجویز پر ایک عنصر اگرچہ خاموش رہا مگر خیال ہے کہ حکومت کو اس کی حمایت حاصل ہوجائے گی کیونکہ یہ ملک کے سب سے بڑے شہر کا مسئلہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ راقم اپنے کالموں اور تجزیے میں اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے اسے وفاق کی نگرانی میں دیدیا جانا چاہیے۔ اگر وفاقی حکومت آرٹیکل 149 کے تحت کراچی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو بہتر ہوگا کہ کراچی کو الگ حیثیت دینے کا ہی فیصلہ کرلیا جائے اور براہ راست وفاقی علاقہ قرار دیدیا جائے جس طرح اسلام آباد کی علیحدہ حیثیت ہے۔ آج اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے تو کیا ہوا کل کراچی کو بھی ملک کا کیپٹل ہونے کا اعزاز تھا۔