خلیج سے برصغیر تک جنگوں کا سماں

225

سعودی عرب میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو پر ڈرون حملوں نے خلیج میں ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے۔ آرامکو آئل ریفائنری کے دو آئل فیلڈز پر ڈرون حملوں میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر خلیج میں پہلے سے موجود سیاسی بحران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تیل اور توانائی کے بحران اور قیمتوں میں اضافہ کے خدشات کو بھی بڑھا دیا۔ ان حملوں کی ذمے داری یمن میں لڑنے والے حوثی باغیوں نے قبول کی ہے مگر امریکا کا اصرار ہے کہ یہ حملے ایران نے کیے ہیں اور امریکا اس بنیاد پر ایران کو سزا دینے کے بارے میں ایک ماحول بنانے کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔ سعودی وزیر توانائی کے مطابق حملے کے بعد تیل کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے جبکہ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے تیل کی قیمتیں بڑھ کر ستر ڈالر فی بیرل ہو نے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ سعودی عرب نے ان حملوں کی ذمے داری تو ایران پر عائد نہیں کی مگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے یہ اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے حقیقت میں ایران نے کیے ہیں۔ مائیک پومپیو کے مطابق ایک طرف ایران اس طرح کے حملوں میں ملوث ہے تو دوسری طرف ایرانی صدر اور وزیر خارجہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ امریکا کے سینیٹر لنڈے گراہم نے تو حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ امریکا جواب میں ایرانی تیل کی تنصیبات پر حملے کرے۔ گراہم کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ امریکا ایرانی اشتعال انگیزی کا نوٹس لے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے رابطہ کرکے مدد کی پیشکش کی ہے مگر محمد بن سلمان کی طرف سے اس پیشکش پر یہ کہہ کر شکریہ ادا کیا گیا ہے کہ سعودی عرب اس طرح کی جارحیت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور ارادہ بھی۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی الزام کو مسترد کیا ہے اور کہا امریکا ایسے الزامات لگا کر کاروائی کا جواز چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مائیک پومپیو ’’زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘ کی پالیسی کے بعد اب ’’زیادہ سے زیادہ دھوکے ‘‘ کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ سعودی عرب ان حملوں کے بارے میں ایران کا نام لینے سے گریزاں ہے اور امریکا کن پٹی پر بندوق رکھ کر یہ چاہتا ہے۔ امریکا کی طرف سے سعودی عرب کو اعلانیہ طور پر کہا گیا ہے کہ وہ ایران کا نام لے۔ جس کے بعد سعودی عرب نے حملے میں ایرانی ہاتھ کی ملفوف بات کی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ امریکا سعودی عرب سے یہ اعلان کروا کر دم لے گا کہ تیل کی تنصیبات پر ہونے والا حملہ براہ راست ایران نے کیا ہے۔ اسرائیل کے ذرائع نے تو یہ اطلاع دی ہے کہ حملہ عراق کی سرزمین سے کیا گیا۔ عراق کی سرزمین اور موجودہ منظرنامہ تو امریکا کا اپنا تخلیق وتشکیل کر دہ ہے۔ صدام حسین سے آزادی کے نام پر امریکا نے برسوں کی محنت کے بعد عراق کی موجودہ صورت گری کی تھی۔ عراق کے حکمران آج
بھی امریکا کے زیر اثر ہیں۔ کیا امریکا کی رضامندی کے بغیر عراق کی سرزمین امریکا مخالف مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو امریکا نے خلیج کی تمام جنگوں میں اختیار کیا ہے۔ ایران اور عراق کی جنگ کے بعد خلیج کی پہلی جنگ میں صدام حسین کو حیلوں بہانوں سے گھیر کر جنگ کا ماحول بنا دیا گیا۔ امریکی سفیر نے صدام حسین سے ملاقات کی اور چند دن بعد صدام حسین نے کویت پر قبضہ کر لیا اور امریکا نے یہ قبضہ چھڑانے کے نام پر خلیج میں جنگ کا ماحول بنا دیا اور جنگ بھی ایسی چھڑی کہ جو کئی جنگوں کی ماں کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس طرح صدام کو ہلہ شیری دینے اور پھر سزا دینے میں امریکا پیش پیش رہا۔ خلیج کی دوسری جنگ میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا بے سروپا الزام لگا کر صدام حسین کی رہی سہی طاقت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ان جنگوں نے امریکا کو خلیج میں اپنی پسند کا نقشہ ترتیب وتشکیل دینے کا موقع فراہم کیا۔ امریکا کی سعودی عرب میں موجودگی نے اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کو مزاحمت پر مجبور کیا اور یوں ایک عالمی شدت پسندی نے جنم لیا جس کی آڑ میں امریکا نے خلیج سے آگے بڑھ کر افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں کی چولیں ہلانے کی بھرپور کوشش کی۔
ایک موجِ خوں ہے کہ دو دہائیاں ہونے کو ہیں مگر اب بھی خطے کے عوام کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہے۔ امریکا اس جنگ میں سعودی عرب کا اتحادی اور سرپرست بننا چاہتا ہے مگر ماضی کی طرح میزائل اور گولہ وبارود کا بل بھی سعودی عرب ہی کو پیش کیا جانا ہے۔ گویا کہ جنگ کا تاوان اور دفاع کا سارا خرچہ بھی سعودی عرب ہی کو ادا کرنا ہے۔ شاید یہی وجہ کہ محمد بن سلمان نے امریکا کی طرف سے تعاون کی پیشکش کو بصد شکریہ مسترد کیا ہے مگر امریکا ایسا ماحول بنا سکتا ہے کہ جس میں سعودی عرب تعاون حاصل کرنے پر مجبور ہو۔امریکا اس ماحول سازی کے اسباب بھی رکھتا ہے اور وسائل بھی۔ اب جہاں ایک طرف امریکا خلیج میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کا اسٹیج سجا رہا ہے وہیں بحیرہ عرب کے پانیوں سے پار جنوبی ایشیاء میں دو اہم ملکوں بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی جنگ کا ماحول پورے عروج پر ہے۔ خلیج کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی امریکا کا رویہ مشکوک ہے۔ امریکا یہاں بھارت کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے دونوں دفاعی تعاون کی ہر شکل وصورت میں ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل بھی اس مثلث کا اعلانیہ حصہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا کا تعلق واجبی سا، مجبوریوں اور لین دین کا ہے۔ جس میں پائیداری اور گہرائی نہیں۔ ایسے میں اگر پاک امریکا جنگ چھڑتی ہے تو امریکا لامحالہ اس جنگ کے نتائج کو اپنے طویل المیعاد مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے گا۔ جن میں ایک اہم مقصد چین کے پہلو میں خیمہ زن ہونا ہے اور یہ وہ خواہش ہے جو امریکا مدتوں سے دل میں پالے ہوئے ہے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی امریکا کو یہاں سینگ پھنسانے کا موقع نہیں دے رہی جبکہ پاکستان ثالثی کے نام پر یہ جوا کھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔