ٹرمپ کی ایک اور حماقت

392

 

 

؎
ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اگست 2019 کو واشنگٹن کے قصر سفید میں صحافیوں سے ایک نشست میں کہا کہ: ’’وہ یعنی امریکا افغانستان جیسی جنگ کی دوبارہ حماقت نہیں کرے گا۔ اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اپنی افواج کا افغانستان سے انخلا یقینی بنائیں۔ اور میں امریکا کو اس احمقانہ جنگ سے نکالنا چاہتا ہوں‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ: ’’انہیں یعنی ان کے ملک کو اس جنگ میں شامل ہونا ہی نہیں چاہیے تھا‘‘۔ یقینی طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس عرصے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان بڑے اہتمام، تسلی اور سوچ بچار کے ساتھ مذاکرات کے نو دور ہوئے۔ پوری دنیا نے ان مذاکرات سے اچھی امید باندھی۔ علی الخصوص افغان عوام کی نگاہیں امن اور صبح آزادی پر مرکوز رہیں۔ مذاکرات کا مسودہ تیار ہوا جس کی ایک کاپی قطر کی حکومت کو دی گئی، ایک طالبان اور ایک کاپی امریکی مذاکراتی نمائندوں کے حوالے ہوئی۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے بقول قطر کی حکومت کی جانب سے تقریب میں معاہدے کے اختتام کا اعلان کیا جانا تھا۔ چناںچہ یکایک ڈونلڈ ٹرمپ نے 8ستمبر کو اپنے ٹویٹ کے ذریعے مذاکرات کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ جس کے لیے طالبان کے 6ستمبر 2019 کو کابل میں ایک حملے میں مارے جانے والے امریکی سپاہی کا بہانہ تراشا گیا۔ گویا امریکی صدر نے ایک اور حماقت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ حالانکہ افغان روزانہ کی بنیاد پر کٹ مر رہے ہیں ان کی آبادیاں نشانہ بن رہی ہیں۔ اسکول، مساجد اور بازاروں پر بم اور گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ اور امریکا نے اٹھارہ سال سے معصوم افغان عوام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے اور ان کے وطن پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انتخابات اور جمہوری حکومت کے نام پر کابل میں اپنے کتھ پتلی بٹھا رکھے ہیں۔ صدر جارج ڈبلیو بش اور صدر باراک
حسین اوباما کے بعد ٹرمپ تیسرے صدر ہیں کہ جنہوں نے جنگ اور افغانوں کے کشت و خون کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس پورے عرصہ بے ثمر رہا ہے۔ اور افغانستان میں نقصان ہی اُٹھایا ہے۔ امریکا کا بھاری سرمایہ ضائع ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے اور سمجھنے کی ہے کہ امریکا خواہ کوئی بھی حربہ استعمال میں لائے مگر طالبان اپنے جائز موقف اور مزاحمت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
حزب اسلامی افغانستان نے موثر سیاسی آواز اُٹھا رکھی ہے۔ حزب اسلامی غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ ہر فورم پر کرتی ہے۔ حزب اسلامی نے اپنے ایک حالیہ اعلامیہ میں مذاکرات کی معطلی کے اعلان کو افغان عوام اور طالبان کی توہین قرار دیا ہے۔ حزب اسلامی کہتی ہے کہ ان کے ایک (امریکی) سپاہی کی ہلاکت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہر روز تین سو افغان مر رہے ہیں۔ اور پچھلے چھ ماہ میں پچاس ہزار افغان باشندے جان سے گئے ہیں۔ افغانستان کے ایک چینل طلوع نیوز کو انٹرویو میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے ایک بار پھر دہرایا کہ خارجی افواج افغانستان سے عزت و حیا کے ساتھ اپنا انخلا یقینی بنائیں اور یہ بھی کہا کہ: ’’خارجی جاتے ہوئے کابل انتظامیہ کو بھی ہمراہ لے جائیں۔ گلبدین حکمت یار کہتے ہیں کہ کابل حکومت کے یہ بڑے دوسرے ملکوں کے پاسپورٹ اور گرین کارڈ رکھتے ہیں۔ ان کی اولادیں باہر ملکوں میں مقیم ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے افغانستان سے چلے جانا مشکل نہ ہوگا۔ اور افغانستان سے قابض افواج کے انخلا سے خطے میں امن قائم ہو گا‘‘۔ یقینا افغانوں کی اپنی حکومت قائم ہو گی تو کسی کو ملک کے اندر افراتفری یا کسی ہمسایہ یا دوسرے ملک کے مفادات کے خلاف تخریب کاری کی جرات و موقع نہیں ملے گا۔ سردست شر اور فساد کا محرک امریکا ہی بنا ہے۔ وگرنہ داعش اور دوسرے جھتے کیوں افغانستان میں پنپتے۔ طالبان کی حکومت امریکی حملے سے قبل اسامہ بن لادن کی بابت ہر جائزو معقول تعاون کو تیار تھی۔ ملا محمد عمر مرحوم نے امریکی نمائندہ سے ملاقات کی ہامی بھی بھر لی تھی۔ یہاں تک کہ اسامہ کو افغانستان سے چلے جانے کا کہا۔ اور امریکا کو آگاہ بھی کر دیا تھا۔ مگر امریکی حکام نے پھر بھی قناعت نہ کی اور طالبان پر واضح کیا کہ ان کے اسامہ بن لادن کے علاوہ افغانستان میں اور بھی مقاصد ہیں۔ یعنی امریکا سامراجی اور انتہا پسندانہ مقاصد حاصل کرنے کا فیصلہ بہت پہلے کر چکا تھا۔
طالبان کی حکومت نے بھارت کے لیے بھی معاندانہ رویہ نہیں رکھا تھا۔ بلکہ ان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی خواہش مند تھی۔ اس جانب طالبان نے ہاتھ بھی بڑھایا۔ بائیس دسمبر 1999 کو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے ہائی جیک ہونے والا بھارتی طیارہ قندھار کے ائرپورٹ پر اترنے دیا۔ طیارے نے بھارت کے امرتسر ائرپورٹ سے فیول کے لیے لینڈنگ کی تھی۔ جس کے بعد لاہور ائرپورٹ پر بھی اترا تھا۔ طالبان نے انسانی بنیادوں پر یعنی دوسو تیرہ عام مسافروں کی سلامتی کو پیش نظر رکھ کر طیارہ قندھار ائر پورٹ پر اترنے دیا۔ حالانکہ پاکستان کی جانب سے انہیں طیارہ نہ اترنے کی درخواست کی گئی تھی۔ طالبان کے اس اقدام کو بھارت اسی طرح روس اور امریکا نے بھی سراہا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی قیادت میں پچاس افراد پر مشتمل وفد جہاز کے ذریعے قندھار پہنچا۔ اور اپنے ہم منصب طالبان وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کو بھارت کے دورے کی دعوت بھی دی۔ تب طالبان حکومت کا یہ اظہار بھی سامنے آیا کہ انہیں بھارت سے سفارتی تعلقات بنانے کا موقع ملا ہے۔ طالبان ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہش مند تھے۔ وہ کسی بھی ملک میں عدم مداخلت کی پالیسی رکھتے تھے۔ نہ کسی کو اجازت دی کہ وہ ان کے ملک میں بیٹھ کر اپنی دشمنیاں پالنا شروع کر دے۔ جیسے اس وقت بھارت افغانستان میں بیٹھ کر کابل انتظامیہ کے تعاون سے ہر لمحہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بُن رہا ہے۔ اور یہ سب امریکی چھتر سایہ میں ہو رہا ہے۔ ان تینوں نے پاکستان کے اندر پراکسیوں کو بھی متحرک رکھا ہے۔ ان پراکسیوں کے پاس سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ اور ہر طرح سے قابضین کی مددو مدح سرائی کرتے ہیں۔ پشتون و افغان وعوام کو بے راہ کرنے اور ان کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک کہنے کی تکراران کے شب و روز کا وظیفہ ہے۔ مگر یہ امر روشن ہے کہ امریکا، بھارت اور کابل انتظامیہ خواہ کتنے ہی جتن کریں، پراکسی پالیں مگر افغانستان میں ان کی موجودگی دیر پا نہ رہے گی۔
شرم و حیا سے عاری ڈاکٹر اشرف غنی افغانوں پر ہونے والی بمباریوں پر کبھی رنجیدہ نہیں ہوئے۔ بلکہ انہیں فقط اپنی حکمرانی اور امریکیوں کی خوشنودی سے غرض ہے۔ حامد کرزئی بھی واشنگٹن کی ہدایت پر بٹھائے گئے صدر تھے۔ لیکن وہ معصوم افغان عوام کے قتل اور بربادی پر کئی بار رو پڑے۔ سو امریکی حکومت اور پالیسی ساز اپنے عوام کو تاریکی میں نہ رکھیں۔ چناں چہ مزید حماقت کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات کی بحالی کے آغاز کا اعلان کریں تاکہ ان کی فوجیں اور جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک بسلامتی امر یکا منتقل ہو۔