تعلیم کی زبوں حالی

399

 

 

پشاور ہائی کورٹ نے آٹھویں جماعت کے امتحانات بورڈ کے تحت کرنے پر حکم امتناع ختم کرکے بورڈ کو امتحان لینے کی اجازت دے دی ہے جب کہ دوسری جانب سیکرٹری تعلیم نے عدالت میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے نہم اور دہم کے بعد ایف اے، ایف ایس سی کے امتحانات بھی ماضی کی طرح دوبارہ اکٹھے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ جب دنیا نئی نسل کو جدید رجحانات اور تقاضوں کے مطابق معاشرتی چیلنجز سے عہدہ براء کرنے کی عملی تعلیم و تربیت دے رہی ہے ہمارے عالیٰ دماغوں کو ایک بار پھر شعبہ تعلیم کو مشق ستم بنانے کی سوجھی ہے۔ تعلیمی نفسیات اور تعلیم وتحقیق کی الف ب سے بھی نابلد یہ شہ دماغ اور کچھ کرنے سے تو رہے گھوم پھر کر ان کا سارا زور کبھی پانچویں اورکبھی ہشتم کو بورڈز سے منسلک کرنے اور کبھی نویں دسویں اور گیارہویں بارویں جماعتوں کو الگ الگ اور کبھی انہیں یکجا کر کے ان کے سالانہ امتحانات بورڈز کے تحت لینے کافیصلہ کیاجاتا ہے۔ تھوک کے حساب سے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ان بورڈز کی علمی، تکنیکی، تحقیقی اور انتظامی استعداد اور معیار کی کیا حالت ہے۔ آج تک کسی کو بین الاقوامی پیمانے کے مطابق یہ استعداد اور معیار جانچنے کی نہ تو توفیق نصیب ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام موجود ہے جس کو بروئے کار لاکر حکومت اور حکومت کے متعلقہ ادارے جن کے فرائض میں یہ سب امور شامل ہیں متعلقہ بورڈز سے کوئی جواب دہی کر سکیں لہٰذا جس کا جو دل میں آتا ہے وہ اصلاحات کے خوشنما لبادے میں ملک اور قوم کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے سرکاری احکامات کی صورت میں جاری کردیتا ہے۔ آٹھویں جماعت کا امتحان بورڈ کے حوالے کرنے سے متعلق یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ نجی اسکول چونکہ بورڈ میں بہتر نتائج کے حصول کی خاطر آٹھویں کا کورس گول کر کے نویں کلاس کا کورس آٹھویں جماعت ہی میں شروع کروا دیتے ہیں لہٰذا ان کے اس عمل کو روکنے یا اس کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ اور جائزہ لینے نیز نجی اسکولوں کا نقطہ نظر سننے کے بجائے اس مسئلے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ اگر آٹھویں کے سالانہ امتحان کو بالائی احکامات کے ذریعے زبردستی بورڈز کے ماتحت کردیا جائے تو اس طرح نجی اداروں کو نہ صرف نویں جماعت کا کورس آٹھویں کلاس میں پڑھانے سے روکا جاسکے گا بلکہ ان اداروںکو بورڈز کے امتحانات کے فیصلے کی وجہ سے اپنے بچوں کو آٹھویں جماعت کا کورس پڑھانے پر بھی مجبور کیا جاسکے گا، یہ ہے وہ منطق اور دلیل جو سال ہا سال سے چلے آنے والے ایک سلسلے کو یکدم تبدیل کرنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح حکومت نے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے اور ترقی یافتہ دنیا کی تقلید اور مقابلے کے بجائے ماضی کی جانب لوٹتے ہوئے نویں اور دسویں اور سال اول اور دوم کے امتحانات ایک بار پھر مشترکہ طور پر لینے کا جو ارادہ ظاہر کیا ہے یا پھر اس سلسلے میں جو تیاریاں کی جارہی ہیں اس سے بھی ہمارا تعلیمی نظام اور معیار دونوں ترقی یافتہ دنیا تو کجا سندھ اور پنجاب سے بھی کوسوں پیچھے رہ جائیں گے جس کی تازہ مثال انجینئرنگ اور میڈیکل وڈینٹل کالجوں کے داخلوں کے لیے ہونے والے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ایٹا امتحانات کے نتائج میں پایا جانے والا زمین آسمان کا فرق ہے جس پر ان دنوں والدین اور طلبہ وطالبات کی جانب سے کافی شور مچایاجارہا ہے لیکن چونکہ ان کی آواز منتشر ہے اور کوئی ان کی آواز پرکان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے حالانکہ اگر ان کی آواز اور دلیل کو سنا جائے تو اس میں کافی وزن نظر آتا ہے۔
تعلیم کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سنگین مذاق کے علاوہ ایک اور کھلواڑ ذریعہ تعلیم کو کبھی اردو اور کبھی انگریزی میں کرنا ہے بلکہ ایک موقع پر تو اسے مشرف بہ پشتو کرنے کا سنہرا خیال بھی ہمارے قوم پرست بھائیوں کو چرایا تھا یہ الگ بات کہ پشتو کے ان بہی خواہوں کے اپنے سپوت ایچی سن، برن ہال اور اسی نوعیت کے دیگر مثالی انگریزی تعلیمی اداروں کو رونق بخشتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت جو سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ایک قوم اور ایک نصاب کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی سے پوری قوم یہ توقع کر رہی تھی کہ یہ اپنے وعدے اور نعرے کے مطابق اولین ترجیح نظام تعلیم کی اصلاح اور اس اہم ترین شعبے میں پائی جانے والی خامیوں کے ازالے پر دیتے ہوئے پوری قوم کو حقیقی معنوں میں ایک لڑی میں پروتے ہوئے ملک بھر کے لیے یکساں ڈھانچے کا حامل نظام اور نصاب وضع کرے گی لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ ہمارے تعلیمی نظام کی زبوں حالی کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے صوبے میں معزز عدلیہ کی جانب سے محکمہ تعلیم کو اس کی ذمے داریوں کے حوالے سے بار بار جتنی توجہ دلائی گئیں ہیں شاید ہی یہ مقام کسی اور محکمے کے حصے میں آیا ہو، یہ معاملہ چاہے عدلیہ کی جانب سے بچوں کے بیگز کا وزن کم کرنے سے متعلق ہو جس میں کہا گیا تھا کہ چھوٹے بچے کمانڈو بن کر نہ صرف اپنے وزن سے زیادہ بھاری بیگ اٹھائے اسکول جاتے ہیں بلکہ بھاری بھرکم بیگوں کی وجہ سے بچوں کی صحت پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے اور کمی سے متعلق پچھلے ایک سال سے عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی وجہ سے بھی اسکول مالکان، اسٹاف اور بالخصوص والدین اور بچوں میںجو گومگوں کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کا فوری تدارک بھی از بس ضروری ہے۔