صبح ہی صبح پولیس نے برلبِ سڑک عدالت سجالی۔ پہلے ڈکیتوں کو (بقول پولیس) زخمی کیا پھر ان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈکیت قابو میں آہی گئے تھے تو پھر ان کو مارنے کا جواز کیا رہ گیا تھا؟۔ کوئی اگر میرے دل سے پوچھے تو یقین مانیں میرے دل سے یہی صدا نکلے گی کہ جو بھی ہوا بہت اچھا ہوا۔ یہ ڈکیت، یہ گلی گلی کوچے کوچے لوٹ مار کرنے والے، یہ خواتین اور مردوں سے زر ومال چھیننے والے اتنے بے رحم اور سفاک ہو چکے ہیں کہ کسی کی ذرا سی مزاحمت پر اسے جان سے مارنے دینے میں لمحہ بھر بھی دیر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ جب جب بھی کوئی چور یا ڈاکو عوام کے قابو میں آجاتا ہے تو وہ جان سے نہ بھی مارا جاتا ہو، زندگی بھر اپنی جان کو روتا ضرور رہتا ہے۔ میرا دل یہی چاہتا ہے کہ جب بھی ایسے لفنگے، چور، اچکے اور درندے قابو میں آئیں ان کو مار ہی دینا چاہیے۔ یہ تو ہے اس دل کی بات جو دودھ کا جلا ہے اور کئی مقامات پر لٹ چکا ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہر اس طرح مارا جانے یا مار دیا جانے والا فرد چور ہی ہو؟۔ کیا کسی کو مارنے سے پہلے چور چور کا نعرہ لگا کر اسے سر عام مارا نہیں جاسکتا؟۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو اس طرح مار دینا۔یہ ایک ایسا فعل کہلائے گا جو آئین و قانون اور حق و انصاف کے منافی ہی ہوگا۔
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جہاں زندگی بغیر کسی ضابطے کے گزاری جاتی ہو۔ یہ ضابطے اور ان پر عمل درآمد ہی ملک کے طول و عرض میں امن و سکون کا سبب ہوتا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں نہ صرف آئین و قانون موجود ہے بلکہ دنیا کے بیسیوں ممالک سے کہیں زیادہ بہتر اور مضبوط انداز میں موجود ہے۔ ہر قسم کے ادارے موجود ہیں، پولیس ہے، جاسوسی کے کئی ادارے ہیں، انتظامیہ ہے، مقننہ ہے، اسمبلیاں ہیں، سینیٹ ہے، نیم فوجی دستے ہیں، دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج ہے۔ جیلیں ہیں، جیل خانہ جات کا پور محکمہ ہے اور سب سے بڑھ کر عدالتیں ہیں جو نچلی سطح سے عدالت عظمیٰ تک ہیں، بیسیوں بارایسوسی ایشنیں ہیں اور وکلا کی فوج ہے۔ ایسا ملک جو ہر قسم کے اعلیٰ محکموں اور شعبہ ہائے زندگی سے مزین ہو، ان کے لاکھوں اہل کار ہوں، یہ سارے کے سارے اہل کار محض اس لیے بھرتی کیے گئے ہوں کہ وہ عوام کو ہر قسم کے اندرونی و بیرونی خطروں سے تحفظ فراہم کریں گے، مجرموں کو ان کے جرم سے باز رکھیں گے، کسی بھی قسم کی مشکل صورت حال میں عوام کا تحفظ کریں گے، سرحدیں ہوں یا قانونی حدیں، نہ ان کو پار کریں گے اور نہ ہی کسی فرد و بشر کو اجازت دیں گے کہ وہ کسی بھی قسم کی سرحدوں کو پار کرنے کی جرأت کرے۔
گھر ہو یا دفتر، ہر ایک میں کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہنگامی صورت حال کی الگ بات ہے جس میں کچھ حدیں، قانونی ہوں یا اخلاقی، تعاون کے نقطہ نظر سے ضرور توڑی جاسکتی ہیں لیکن متعین کی گئی کوئی بھی حد نہ قانوناً توڑی جاسکتی ہے اور نہ ہی اخلاقاً۔ تعاون ایک الگ بات ہے لیکن مداخلتِ بیجا کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ یہی مداخلتیں ہی ہوتی ہیں جو تلخیوں، فتنوں اور فسادوں کو جنم دیتی ہیں اور اگر ان کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو پھر ایک ایسی ابتری پھیل جاتی ہے جو قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان اسی قسم کی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ کوئی محکمہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کے لیے تیارو آمادہ نظر نہیں آرہا۔
صبح ہی صبح تین ڈکیتوں کو (بقول پولیس) زخمی کردینے کے بعد ان کو بجائے گرفتار کیا جاتا، ان کو درندگی کے ساتھ گولیاں مار کر ہلاک کردینا اس بے لگامی اور بے نکیلی کی ایک بین اور کھلی مثال ہے۔ جس محکمے کا کام ایسے افراد کو پکڑ کر ان کو عدالت میں پیش کر کے قرار واقعی سزا دلانا ہے وہ سر عام خود ہی عدالت بن کر اگر خود ہی وکیل بن جائے، جج بن جائے اور اور جلاد بھی خود ہی بن جائے تو پھر کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ جیلوں میں قید سارے قیدیوں کو ہلاک کردیا جائے، جیلوں کی عالی شان عمارتیں یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے حوالے کردی جائیں، عدالتیں توڑ دی جائیں، ان کے وکلا و ججوں کو فارغ کردیا جائے۔ قوم کے ٹیکسوں کے کھرب ہا کھرب روپے جو ان محکموں پر خرچ ہوتے ہیں ان کو بچاکر ملک کے دیگر ترقیاتی کاموں پر لگائے جائیں تاکہ ملک خوش حال ہو سکے۔ جب راؤ انوار کی طرح ہر پولیس اہل کار نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ اب کسی مشکل میں پڑنے کے بجائے ہر مجرم کو موقع پر ہی ہلاک کردینا ہے تو پھرباقی سارے دم چھلوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ بے شک وہ مار دیے جانے والے چور ہی ہوںگے، ڈاکو ہی ہوںگے لیکن وہ کون سا راز رہا ہوگا جس کو چھپانے کے لیے ان کو ماردیا جانا لازمی ہو گیا؟۔ کیا وہ عدالت میں اپنے کسی ’’بھیجے‘‘ جانے والے ایسے فرد کا نام ظاہر کرسکتے تھے جو محکمے یا کسی بڑی شخصیت کی بدنامی کا سبب بن جاتا اور پکڑنے والے سپاہی کسی مشکل کا شکار ہوجاتے؟۔ یہ بات خوامخواہ ہی ذہن میں نہیں ابھر رہی۔ راؤ انوار سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ عدالت سے باہر عدالت سجانے کی جرات کیوں ہوئی؟۔ میر مرتضیٰ بھٹو کو تو پولیس نے قتل کیا تھا لیکن آج تک حکم جاری کرنے والے کا نام سیغہ راز میں کیوں ہے؟۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس نے سیدھی گولیاں چلاکر 14 افراد ہلاک کر دیے اور 100 سے زائد زخمی کر دیے، جس حکومت پر الزام تھا اس کے کسی ایک فرد پر بھی قتل کے الزام میں کوئی ایک مقدمہ کیوں قائم نہیں ہوا؟۔ اسی قسم کے لاتعداد واقعات کی تحقیق جب جب ہوگی، کئی ایسے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے جن کے متعلق کوئی سوچ بھی لے تو دنیا میں نہ رہ سکے گا۔ اس لیے یہ سوچنا کہ بے بس اور زخمی ڈکیتوں کو جان سے ماردیے جانے میں بھی کسی راز کا بھرم پوشیدہ ہے، خلاف عقل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کے کسی قانون میں چوری کا جرم ’’موت‘‘ کی سزا تجویز ہے؟۔ جب قوم کے محافظ کسی سے زندگی چھین ہی رہے ہیں تو کم از کم ان کو یہ اطمینان تو ہونا ہی چاہیے کہ قانون ان کی پشت پر کھڑا ہے اور قانون نے اسے ’’چوری‘‘ کی سزا پر مار دینے کا اجازت نامہ عطا کیا ہوا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر عدالت سے پہلے عدالتیں سجانے کے مظاہرے قانون خود اپنے ہاتھ میں لے لے گا تو وہ سارے گروہ جن کی نگاہوں میں قانون کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا وہ گلی گلی اور نگر نگر عدالتیں لگا کر بیٹھ جائیں گے۔ وہ خود ہی وکیل بن جائیں گے، خود ہی جج بن جائیں گے اور جلاد تو وہ پہلے ہی بنے ہوئے ہیں۔ لا قانونیت بڑھتی جائے گی۔ بدامنی و فتنہ و فساد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور سب ایک دوسرے کے پیچھے چور چور کا شور بلند کر رہے ہوں گے اور جو بھی مر جائے گا یا ماردیا جائے گا وہ چور اور ڈاکو کہلا کر چیل کوئوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔
یہ امر بہت ضروری ہو گیا ہے کہ وہ سارے محکمے جن کا کام امن و امان کو برقرار رکھنا ہے اور جو بنائے ہی اس لیے گئے ہیں کہ مجرموں کی سرکوبی کریں، ان کے جرم کی دیانتداری کے ساتھ تحقیق کریں اور اگر وہ واقعی مجرم ہیں تو ان کا قواعد و ضوابط کے مطابق چالان کاٹیں اور انہیں عدالت میں پیش کریں۔ اس سے ہٹ کر جو کچھ بھی گہوگا وہ ’’سرحدوں‘‘ کی خلاف ورزی کہلائے گا اور اگر انہوں نے اس قسم کی کارروائیوں کو سرحدوں (حدود) کی خلاف ورزی نہ سمجھا تو وہ سارے عناصر جو پہلے ہی ’’بے حدے‘‘ ہو چکے ہیں وہ گلی گلی محلے محلے لاقانونیت پر اتر کر ان کی اور عام لوگوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیں گے۔