مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت سے پہلے سپریم کورٹ آف انڈیا نے حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے معمولات زندگی بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان درخواستوں کی سماعت کرنے والا بینچ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس اے ایس بوبڈے اور جسٹس ایس اے نذیر پر مشتمل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے اور بھارت کے مختلف فیصلوں کو مختلف افراد نے چیلنج کیا ہے۔ عدالت ان سب درخواستوں کو یکجا کررہی ہے اور ایسی ہی ایک درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے عدالت نے کانگریس کے صدر غلام نبی آزاد کو جموں، سری نگر، اننت ناگ اور بارہ مولہ کا دورہ کرنے کی مشروط اجازت دی ہے۔ شرط یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نہ تو ان علاقوں میں کوئی ریلی نکالیں گے اور نہ ہی تقریر کریں گے۔ عدلیہ کی ان شرائط کو بھارت کے مسلمان راہنما اسد الدین اویسی نے کھل کر ہدف تنقید بنایا ہے کہ غلام نبی آزاد ایک سیاست دان ہیں اور وہاں جا کر سیاست کرنے پر پابندی ایک عجیب فیصلہ ہے۔
بھارتی حکومت نے عدالت میں پانچ اگست کے فیصلے کی حمایت میں گزشتہ تیس برس میں ہونے والے واقعات اور انسانی نقصان کی ایک تفصیل پیش کی جبکہ مقبوضہ علاقے میں زندگی معمول پر لانے کے اقدامات بھی گنوائے۔ عدالت نے حکومت کو اس حوالے سے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ ججوں کے کچھ ریمارکس میں سیکورٹی کو زک نہ پہنچاتے ہوئے نارملسی بحال کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ ایک باریک بات ہے جو آگے چل کر بھارتی عدلیہ کو انصاف کے بجائے قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر اسی طرح غلط فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ بھارتی عدلیہ نے یہ انداز معروف حریت پسند محمد افضل گورو کے کیس میں اپنایا تھا۔ جب قانونی شواہد اور دلائل سب کچھ افضل گورو کے حق میں تھا مگر پارلیمنٹ حملے کا انتقام لینے کی خاطر افضل گورو کو پھانسی دینا بھارتی عدلیہ کی مجبوری اور ضرورت بن گیا۔ اس سیاہ فیصلے کو عدلیہ نے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا نام دیا تھا۔ عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کی اصطلاح سے ایک غلط فیصلہ کسی طور پر درست نہیں کہلا سکتا۔ یہ فیصلہ بھارتی عدلیہ کے دامن پر سیاہ دھبے کے طور پر موجود رہے گا۔ اس بار بھی بھارت کی عدلیہ امتحان گاہ میں کھڑی ہے مگر اس امتحان گاہ میں بھارتی عدلیہ کا کامیاب وسرخرو ہونا یقینی نہیں۔ جس طرح بھارتی حکومت نے اپنے اقدامات کو قانون سے ماورا بنانے کے لیے سیکورٹی، دفاع اور قومی انا کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اس طرح عدلیہ سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
کشمیر کی صورت حال کو دفاع کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اسے ہندو قوم پرستی اور انا کے ساتھ نتھی کرنا ہے حالانکہ بھارت کا یہ فیصلہ بھارتی آئین اور قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ عالمی اور دوطرفہ معاہدات کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت کا مقدمہ اس ضمن میں بہت کمزور اور پھُسپھُسا ہے۔ اسی لیے بھارتی حکومت اسے عدالت میں سیکورٹی کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہے گویا کہ کشمیر میں چلنے والی اکہتر سالہ تحریک کی وجہ کشمیر کی خصوصی شناخت ہے۔ دفاع اور قومی مفاد وہ مقام ہے جہاں بھارتی عدلیہ کے پر بھی جلنے لگتے ہیں۔ جہاں تک کرفیو اُٹھائے جانے کا معاملہ ہے وہ ایک غیر معینہ مدت تک جاری رکھا جانا والا عمل نہیں۔ جلد یا بدیر بھارت کو کرفیو اُٹھا کر زندگی کو نارمل کرنا ہی ہے۔ ایسے میں جب پاکستان بھارت کے فیصلوں کو ہر فورم پر ہر انداز سے ہدف تنقید بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی دبائو بن رہا ہے بھارت کا تادیر کرفیو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اصل سوال کرفیو کا اُٹھایا جانا نہیں بلکہ اسٹیٹ سبجیکٹ کا وہ قانون ہے جس کے تحت غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور ملازمت کرنے کا حق نہیں۔ بھارتی عدلیہ کی آزاد ی اور خودمختاری کا اصل امتحان اسی وقت شروع ہوگا جب مقدمے کی کارروائی اس سمت میں آگے بڑھے گی۔ عین ممکن ہے کہ پس پردہ بین الاقوامی کوششوں کے بعد مودی حکومت نے عدلیہ کے ذریعے ’’فیس سیونگ‘‘ پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ ایسا ہوا تو مسئلے کا پرنالہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی آسکتی ہے۔
کشمیرکی موجودہ صورت حال کو جوں کا توں رکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کا دور دور تک امکان نہیں بلکہ جب تک موجودہ صورت حال برقرار رہے گی۔ کشمیر پاکستان آزاد کشمیر اور بیرونی دنیا میں عوام کے جذبات کو بھڑکاتا رہے گا۔ بھڑکتے جذبات میں امن کی بیل کا منڈھے چڑھنا ممکن نہیں۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کو پانچ اگست سے پہلے کی سطح پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن بحال کرے خواہ یہ عمل عدلیہ کی سہولت کاری ہی سے کیوں ممکن نہ ہو۔ اس کے سوا پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں بڑی دھوم رہی ہے۔ پاکستان کی عدالتیں اور وکلا بھارتی عدالتوں کو اپنے فیصلوں اور دلائل میں مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ اس بار بھی ’’عوامی ضمیر کو مطمئن‘‘ کرنے کے داغ ماتھے پر سجائے گا تو یہ بھارت کے قانونی نظام کے زوال کو تیز کرے گا۔ بھارت جیسے تیزی سے ریڈی کلائز ہوتے ہوئے معاشرے میں عدلیہ کا مصلحتوں کا شکار ہونا آنے والے دنوں میں قانون کو مزید بے بس کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔