کس چیزکا انتظار کیا جارہا ہے؟

226

بولیں یا چپ رہیں! حقائق سے مفر نہیں۔ ایک برس سے ملک اس طرح چلایا جارہا ہے جیسے مذاق کیا جارہا ہو۔ عوام حقیقی حکمرانوں سے جس طرح متنفر ہوتے جارہے ہیں وہ تباہ کن ہے۔ معاشی بحران، بد انتظامی اور دگرگوں سیاسی حالات محض اعداد وشمار اور اخبار کی سرخیاں نہیں ہیں حکومت کی بے ہودگیوں اور غیر سنجیدگیوں کو عوام دن رات بھگت رہے ہیں۔ کراچی، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں غلاظتیں بکھری پڑی ہیں۔ ڈینگی پھر کمر توڑنے کے لیے مورچہ بند ہے۔ پولیوکے جرثومے ملک میں رینگ رہے ہیں۔ معیشت آسمان پر اور ملک اوندھے منہ پڑا ہے۔ خارجہ امور پر وجد وحال طاری ہے۔ ان ناکامیوں کا ذمے دار کون ہے۔ جنہوں نے کل آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا وہ یا جن کے رسوا کن آپریشن ردوبدل سے ملک کا جوڑ جوڑ درد کررہا ہے۔ بڑی کاوش کے بعد جو تبدیلی لائی گئی اس نے ملک کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔
ملک کو ایک ایسا باکسنگ رنگ بنادیا گیا ہے جہاں اپنی بقا کے لیے دوسرے کو گرانا لازم ہے۔ اس مشق سے یہ گمان کرنا کہ معاشرہ سازگار اور ملک آراستہ وپیراستہ ہوجائے گا۔؟ ان مشقوں نے جو افراتفری پھیلائی ہے کہ اس کے حجم اور وسعتوںکا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ عدالتوں کے ذریعے جسم روندے جارہے ہیں، روحیں کچلی جارہی ہیں، عزت نفس پامال کی جارہی ہیں۔ کبھی ایک ادارہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی مہم پر نکل جاتا ہے کبھی دوسرا۔ ماضی میں مشرقی پاکستان کو بے اثرکیا گیا۔ نتیجہ ایک سانحہ عظیم کی صورت سامنے آیا۔ اتنی ٹھوکروں اور ناکامیوں کے بعد فیصلہ سازوں کو ولی ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہلاکت انگیز مداخلتیں ہیں کہ رکنے میں نہیں آرہی ہیں۔
عمران خان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی گئیں تھیں۔ کرکٹ کا فاتح حکومت چلانے میں بھی کامیاب رہے گا یہ وہ عظیم دانش تھی جس نے ہمارے غازیوں کو بے حال کر رکھا تھا۔ عمران خان کی کارکردگی ایک دن بھی تسلی بخش نہ رہی۔ ان کی ابتدائی حماقتیں اور حرکتیں اچھا خاصا مسخرہ پن تھیں لیکن انہیں نظر انداز کردیا گیا اس امید پر کہ وہ جلد ہی اپنے آپ پر قابو پالیں گے۔ سیکھ جائیں گے۔ ایک سال کے بعد ان امیدوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ حکومت چلانے کے معاملے میں ان کی کارکردگی طفلانہ غوں غاں سے زیادہ نہیں۔ ان کی ایسی کون سی کارکردگی ہے جس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اگلے چار برس بھی ملک ان کے سپرد کیا جاسکے۔ الیکشن مہم کے دوران وہ بداخلاقی کی علامت تھے تو حکومتی اقدامات کے بعد وہ بے وقوفی کے گھر کا پتا ہیں۔ ہر اڑتے ہوئے تیر کو لپک کر اپنی سمت موڑنا ایک الگ جداگانہ خوبی ہے۔ ان کاتازہ کارنامہ میڈیا کو امتیازی قوانین اور عدالتوں کے سپرد کرنا ہے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک میڈیا کو مزے چکھانا کسی کو راس نہیں آیا۔ ماضی میں کیے گئے کون سے وعدوں کی انہوں نے تکمیل کردی ہے کہ مزید خفت کے لیے اس مہم کو سر کرنے نکل پڑے ہیں۔ بتدریج وہ ایک ڈکٹیٹر کا روپ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کی اس سے بڑی بدنصیبی کوئی نہیں ہوتی کہ وہ آمرانہ اقدامات میں پناہ تلاش کرے۔
بو لتے وقت، وعدے کرتے وقت وہ ممکنات پر غور نہیں کرتے۔ ان کا ہر یوٹرن اس بات کا مظہر ہے کہ وہ ماضی میں بکواس کرتے رہے ہیں۔ وہ یوٹرن کو قابل فخر عمل گردانتے ہیں جو سوائے بے ضمیری اور دماغ کی خرابی کے کچھ نہیں۔ ان کی تحریک انصاف ایک ایسا کاٹھ کباڑ ہے جو فروخت کے قابل ہے اور نہ جلائے جانے کے۔ کسی ایک وزیر کا نام بتا دیجیے جو بولنے والے جان دار کے علاوہ کوئی اور خوبی رکھتا ہو۔ عمران خان پیشہ ور فنکاروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا ایک عام آدمی بھی ان کی حقیقت سے آگاہ ہے اگر کوئی آگاہ نہیں ہے تو وہ عمران خان ہے۔
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان معیشت پر سب سے زیادہ بولتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس شعبے میں ان کا عظیم ویژن یہ سامنے آیا کہ انہوں نے معیشت کی شہ رگ آئی ایم ایف کے ذریعے امریکا کے پنجے میں دے دی۔ نواز شریف سے ان کی نفرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ معاشی میدان میں کچھ بہتر کرکے دکھاتے۔ دوست ممالک سے قرضوں کے حصول، چوروں ڈاکوئوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے تصورات، کچے پکے معاشی ماہرین کے دھول دھول معاشی دعوے، خوش گپیاں اور فاش غلطیاں، یہ ان کی ایک برس سے زائد معاشی سرگرمیوں کا حاصل ہے۔ وہ نہ کچھ سمجھ پائے اور نہ معیشت کو سنبھال پائے۔ معیشت قرضوں کی دلدل میں اتر چکی ہے۔ اب نہ ٹیکسوں کی وصولی کی بھرمار ہے اور نہ ڈالروں کی برکھا۔ بیرونی سرمایہ کاری نام کی کوئی چیز پاکستان میں متعارف نہیں۔ معیشت کے شعبے میں انہوں نے جو دھما چوکڑی مچائی اس نے ہر شعبہ زندگی اور اس سے وابستہ افراد کو متاثر ہی نہیں کیا ان کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ وہ پاکستانی معیشت اور عوام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی نے کشمیر میں کاروائی امریکا کی مرضی اور مشاورت سے کی ہے۔ ایٹمی جنگ کا خوف پیدا کرکے عمران خان اس مسئلے سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ معیشت کی طرح وہ کشمیر ایشو کو بھی صدر ٹرمپ کی مدد سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ معلوم، کشمیر کا بھی وہی حال ہوگا جومعیشت کا ہوا ہے۔ خطے میں چین امریکا کا بڑا دشمن ہے، پاکستان چھوٹا دشمن اور بھارت قدرتی حلیف۔ اس باب میں کسی باریک بینی کی ضرورت نہیں کہ امریکا چین سے اور ہم سے بر سر جنگ ہے۔ یہ ایک نئے اندازکی جنگ ہے۔ مشرق وسطی کے حالات جس تیز رفتاری سے تبدیل ہورہے ہیں امریکا جلد یابدیر افغانستان سے نکل جائے گا۔ ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا چاہیے کہ انخلا کے لیے ہمارا تعاون امریکا کے لیے نا گزیر ہے۔ امریکا کو چین کا گھیرا ڈالنے کے لیے بھارت اور لداخ کی ضرورت ہے۔ آپ سعودی عرب کے پاس جائیں، امارات یا امریکا کے پاس سب آپ کو بھارت سے دوستی اور جنگ سے گریز کا مشورہ دیں گے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب ہے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کی برقراری۔ جوصورت حال بن گئی ہے عمران خان کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس سے عہدہ برآہو سکیں۔ کشمیر پر کھوکلے نعرے عمران خان کو وہاں لے جارہے ہیں جہاں فردوس عاشق اعوان ہی ان کا دفاع کرسکتی ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کو جس بے ڈھب طریقے سے چلایا جارہا ہے اس پر اب کسی میں ہنسنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ مثبت رپورٹنگ کی تمام کوششوں کے باوجود پنجاب ہانپ رہا ہے۔ بزدار نااہلی کا صحرا ہے۔ آخر اسے کتنی چھوٹ دی جائے گی۔ کب تک بنی گالا پنجاب اور ملک کے فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔
ہائی کورٹ میں نواز شریف کے مقدمے میں ان کے وکیل نے جس سست روی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کا اظہار ہے کہ نواز شریف کو اب ڈیل کی ضرورت نہیں رہی۔ ملک ایک ایسے انداز سیاست میں گرفتار کردیا گیا ہے جس میں نفرتوں کے سوا کچھ نہیں۔ بے چینی انتہا پر ہے۔ نفرتیں بھڑک رہی ہیں۔ عمران خان ہر شعبے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ تیزی سے غروب ہورہے ہیں۔ وہ جب تک ہیں ملک اور عوام کا وقت خراب کرتے رہیں گے۔ ان کی خاطر کب تک بڑی جماعتوں کو کال کوٹھڑی میں رکھا جاسکتا ہے؟ تمام حریفوں کو باندھ جوڑ کر ایک طرف ڈال دیا گیا ہے۔ میدان ان کے لیے خالی ہے وہ پھر بھی نتائج دینے میں ناکام ہیں۔ کس چیز کا انتظار کیا جارہا ہے؟