نواب بہاولپور کی یادگار گورنمنٹ طبیہ کالج نئے پاکستان کے دعوے داروں کی مہربانی سے آخری دموں پر ہے۔ دو سال سے فنڈز بند ہیں سو، یوٹیلیٹی بل کی ادائیگی نہ ہوسکنے کے باعث سوئی گیس کا کنکشن کاٹ دیا گیا ہے۔ ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو پھکیاں دی جارہی ہیں اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو کالج بند ہوجائے گا۔ 1925ء میں قائم ہونے والا گورنمنٹ طبیہ کالج بہاولپور پاکستان کا واحد سرکاری طبیہ کالج ہے۔ ان دنوں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، بجلی کا کنکشن دوبار کٹ چکا ہے، سوئی گیس کا میٹر کٹنے کے باعث ادویات سازی بند ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق طبیہ کالج میں روزانہ چار سو سے چھ سو مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی ہیں۔ شاید وزیراعظم عمران خان کو یاد نہیں کہ اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آکر وہ تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دیں گے۔ عدلیہ کو بھی یاد نہیں کہ الیکشن مہم کے دوران سیاسی جماعتیں جن وعدوں پر ووٹ لے کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتی ہیں مگر حکومت ملنے کے بعد تکمیل وعدہ کی عمارت تعمیر کرنے کے بجائے الزام تراشی کا پتھرائو کرنے لگیں تو نااہل ہوجاتی ہے۔ جیسے کرایہ دار کرایہ ادا کرنے کے بجائے مکان کی خرابیاں بیان کرکے ٹال مٹول سے کام لے تو مکان خالی کرالیا جاتا ہے اگر ہمارے ہاں اصولوں اور قانون کی حکومت ہوتی تو تحریک انصاف سے ایوان اقتدار خالی کرالیا جاتا کیوں کہ فوج عدلیہ کی معاونت کی پابند ہوتی۔
بہاولپور سے ایک ادبی رسالہ الزبیہ برسوں سے شائع ہورہا ہے۔ جب سے عمران خان وزیرااعظم بنے ہیں اس کے فنڈز بند کردیے گئے ہیں اور بہاولپور طیبہ کالج کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ٹوٹکے بازی کے شوقین ہیں اور سہ ماہی الزبیہ اس لیے بند کردیا گیا ہے کہ عمران خان علم و ادب کے شوقین نہیں۔ گویا اب پاکستان کو ریات مدینہ بنانے کے لیے عمران خان نیازی کی نیاز مندی کی ضرورت ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ وطن عزیز میں اہلیت کا معیار سفارش ہے جو فنکار سفارش سے بے نیاز ہو اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو فنکار، شاعر اور ادیب عزت نفس سے محروم ہو مقتدر طبقے سے نوازا گیا جو آج بے نام ہے کیوں کہ مصنف کا تعلق راولپنڈی سے تھا اور پنڈی وال ہونے کے ناتے وہ مضافاتی ادیب ہونے کی تہمت سے محفوظ تھا۔
یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ لوگ کتب بینی سے بے نیاز ہوچکے ہیں اگر ایسا ہوتا تو ڈائجسٹ کہیں دکھائی نہیں دیتے اصل معاملہ یہ ہے کہ ڈائجسٹ 70 روپے میں ملتا ہے مگر اسی سائز کی کتاب کم از کم سات سو روپے میں ملتی ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین ہیں اگر محترمہ طب کی ڈاکٹر ہوتیں تو طبیہ کالج بہاولپور کے فنڈز بند نہ ہوتے اور اگر ادب کی ڈاکٹر ہوتیں تو ادبی جرائد و رسائل کے فنڈز بند نہ ہوتے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر محترمہ کس شعبے کی ڈاکٹر ہیں۔ اس پس منظر میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ محترمہ ٹوٹکوں کی ڈاکٹر ہیں کیوں کہ حکمران جوان ہو یا بوڑھا ٹوٹکوں شوقین ہوتا ہے۔