برطانیہ میں پانچ روز

172

علامہ غلام ربانی افغانی کی دعوت پر پانچ روز کے لیے برطانیہ جانے کا موقع ملا۔ دورے کا بنیادی مقصد 7ستمبر 2019ء کو فیضانِ اسلام انٹرنیشنل لندن کی عالمی کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت تھی۔ اس کانفرنس کا موضوع ناموسِ رسالت، عالمی امن اور مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتِ حال تھی۔ اس کانفرنس کے دو سیشن تھے، پہلا سیشن مقبوضہ کشمیر کے موضوع پر تھا، اس میں میرے ساتھ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر، لارڈ نذیراحمد، چند برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ، ملائشیا، جمہوریہ کاسووو کے وفود، جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے عہدیداران، برطانیہ کے سرکردہ علماء اور تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ علامہ سید حسین الدین شاہ بھی شریک ہوئے۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہا: ’’آپ اس پروپیگنڈے کا رد کیا کریں کہ پاکستان میں قادیانیوں کے لیے جینا دشوار کردیا گیا ہے، پاکستان میں ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ پرامن طریقے سے رہتے ہیں، محفوظ ومامون ہیں۔ غیر مسلموں کو ہمارا دین اور ہمارا آئین جان ومال اور آبرو کا تحفظ عطا کرتا ہے، ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، قادیانی بھی محفوظ ہیں، اُن سے اہلِ پاکستان کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ وہ دستورِ پاکستان میں طے کردہ اپنی حیثیت کو تسلیم کریں۔ ہم ویزے پر برطانیہ اور مغربی ممالک میں آتے ہیں یا ہمارے وہ لوگ جو یہاں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں، ان پر یہاں کے آئین وقانون کی پابندی لازم ہوتی ہے، سو یہ مطالبہ عالمی معیارات کے مطابق ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور زیردست طبقات کے ساتھ جو ظالمانہ برتائو ہورہا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ بحران 5اگست 2019 کو شروع ہوا، جب مودی سرکار نے بھارت کے دستور کے آرٹیکل 35A اور 370 میں ریاستِ مقبوضہ جموں وکشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا، لدّاخ کو ریاست کی عملداری سے خارج کر کے براہِ راست یونین کے کنٹرول میں دیدیا۔ مذکورہ بالا دونوں آرٹیکلز کے تحت بھارتی دستور نے ریاستِ جموں وکشمیر کو جو خصوصی حیثیت دی تھی، اس کا خاتمہ کردیا۔ ان آرٹیکلز میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ آرٹیکل 238کے تحت پارلیمنٹ کی قانون سازی کا حق ریاست جموں وکشمیر پر لاگو نہیں ہوگا، ریاست سے باہر کے لوگ ریاست میں جائداد خریدنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کے مُجاز نہیں ہوں گے، نیز ریاستِ جموں وکشمیر کا قانونی شہری وہی ہوگا جو 14مئی 1954کو ریاست میں غیر منقولہ جائداد کا مالک تھا اور دس سال تک ریاست کا شہری رہا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ باہر سے ہندوئوں کی نقل مکانی کرکے آبادی کے تناسب کو بدلا نہیں جاسکے گا۔ 5اگست کو یہ خصوصی حیثیت ختم کردی گئی، اب بھارتی حکومت کو یہ موقع مل گیا ہے کہ باہر کے لوگوں کو جموں اور کشمیر میں آباد کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردے، اسے ڈیمو گرافی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ امر واضح رہے کہ جموں وکشمیر تنازع کے دو فریقوں پاکستان اور تحریکِ حُرِّیت نے کبھی بھی آرٹیکل 35A اور 370 تسلیم نہیں کیا، کیوںکہ 1948 کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ آزادانہ استصوابِ رائے اور ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں یا ایک آزاد خود مختار ریاست کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں، اصولی مطالبہ یہی ہے۔ بھارتی دستور کے مذکورہ بالا دو آرٹیکلز کو مِن وعَن تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل مطالبے سے تنزُّل کر کے بھارتی یونین میں امتیازی حیثیت سے رہنا قبول کیا جائے، تاہم وقتی طور پر اشک شوئی کے لیے یہ ایک عارضی تحفظ تھا جسے مودی سرکار نے 5اگست کو سلب کرلیا۔ اسے صرف بھارت کے ہمنوا شیخ عبداللہ، ان کے فرزند فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ نے قبول کیا تھا، اب وہ بھی تازہ اقدام کی وجہ سے بھارتی حکومت کے مخالف ہوچکے ہیں اور معتوب ہیں۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اگر کسی ممکنہ ثالثی یا دو طرفہ مذاکرات کے نتیجے میں بھارت اپنے 5اگست 2019 کے اقدام کو واپس بھی لیتا ہے، تو پاکستان اور تحریکِ حُرِّیت جموں وکشمیر کا اصولی مطالبہ باقی رہے گا اور وہ ہے: ’’اقوامِ متحدہ کی 1948 کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے یعنی اہلِ کشمیر کو یہ حق دینا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزادانہ رائے سے کریں‘‘۔ اس منزل کے حصول تک تقسیمِ ہند اور تشکیلِ پاکستان کا ایجنڈا نامکمل رہے گا۔
سرِدست صورتِ حال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کی حامل ریاستیں امریکا، برطانیہ، روس اور فرانس میں سے کسی نے بھی بھارت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی 5اگست کے اقدام کو واپس لے اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس سے پہلے کی صورتِ حال بحال کرے، چین نے ضرور احتجاج کیا ہے، لیکن لداخ کے حوالے سے وہ خود ایک متاثرہ فریق ہے، اس کا بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع ہے، اس پر 1962 میں سرحدی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر جو محدود حمایت ملی ہے، وہ حقوقِ انسانی، تاریخ کے طویل ترین کرفیو اور محاصرے، بنیادی انسانی حقوق یعنی خوراک، علاج وادویہ کی فراہمی اور اطلاعات وروابط پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ انٹرنیٹ پر جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے ادارے کے حوالے سے جو مشترکہ بیان جاری ہوا، اس کا متن یہ ہے:
’’اقوامِ متحدہ کے منشور، سیکورٹی کونسل کی قراردادوں، حقوقِ انسانی کے معیارات اور قانونِ بینَ الاقوام کے تحت عالمی برادری کو بھارت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے زیرِ انتظام جموں وکشمیر میں خاص طور پر زندگی، آزادی اور سلامتی کے حوالے سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دے، فوری طور پر طاقت کے استعمال بالخصوص چھرے دار بندوقوں کے استعمال کو روکے، طویل کرفیو اور اطلاعات کی فراہمی پر پابندی کو اٹھائے، حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوامِ متحدہ تحقیقاتی مشن قائم کرے، نیزہم یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں وکشمیر کے پرامن حل کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ادارۂ حقوقِ انسانی اور دیگر ذیلی اداروں کی قراردادوں کی حیثیت سفارشات کی سی ہے، اُن میں سے کسی کے پاس عمل درآمد کرانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل واحد ادارہ ہے، جسے تادیبی اور انضباطی فیصلے کرنے اور پابندیاں عائد کرنے کے اختیارات حاصل ہیں، جیسا کہ افغانستان، عراق اور لیبیا وغیرہ کے حوالے سے ہوتا رہا ہے، لیکن مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل بالکل غیر جانبدار ہے۔ 5اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کے بعد اس کا بند کمرے میں ایک اجلاس ہوا، لیکن اس کے حوالے سے کوئی قرارداد، فیصلہ یا مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا، لہٰذا اس اجلاس کی حیثیت صرف علامتی ہے۔
میں نے کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک با اختیار فیکٹس فائنڈنگ مشن بھیجا جائے، جسے تحریکِ حُرِّیت جموں وکشمیر کے قائدین سمیت سب لوگوں سے رابطہ کرنے کی آزادی ہو، وہ یہ اعداد وشمار بھی جمع کرے کہ کتنے لوگ جیلوں میں ہیں، کتنے لوگ زخمی اور زیرِ علاج ہیں، کتنے لوگ غائب کردیے گئے ہیں اور کتنے لوگ شہید ہوچکے ہیں، نیز اُن کی فوری بنیادی انسانی ضروریات معلوم کر کے اُن کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔
امنِ عالَم انسانیت کی اجتماعی ضرورت ہے، اس پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے، لیکن گزشتہ چند عشروں سے امن کے نام پر جو ظلم روا رکھا گیا ہے، اس نے بے امنی اور فساد کو روکنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے اور اس کی بھاری قیمت وصول کی ہے، اس میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سمیت لاکھوں بے قصور انسانوں کی اموات، لاکھوں کی دربدری، لاکھوں کی دائمی معذور ی اور بسے بسائے تاریخی شہروں کی کھنڈرات میں تبدیلی ہے۔
یہ امر مسلّم ہے کہ ظلم کا بیج بوکر امن کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی، اس سے بے امنی، فساد اور شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوگا اور ہورہا ہے، اس کی بھاری قیمت امریکا نے بھی ادا کی ہے اور پاکستان تو سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ آج افغانستان، شام، لیبیا، عراق اور یمن کی حالت ماضی سے بدتر ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ دکھا رہے ہیں کہ داعش کے لوگوںکی ستر ہزار کی تعداد میں بیویاں، بیوائیں اور بچے انتہائی تکلیف دہ حالات میں رہ رہے ہیں اور ان کا انگ انگ، رُواں رُواں، الغرض پورا وجود انتقام کی آگ میں جل رہا ہے، واضح رہے کہ داعش دولتِ اسلامیہ عراق وشام کا مخفف ہے، انگریزی میں اسے ISIS کہتے ہیںاور اب اس میں لیبیا کی شمولیت کے لیے L کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
میں نے کہا: ’’زندگی ہر ایک کو عزیز ہے، ہر انسان اپنی زندگی فرحتوں اور راحتوں میں بسر کرنا چاہتا ہے، موت کو کوئی بھی خوشی سے گلے نہیں لگاتا، لیکن جب آپ کسی سے جینے کا حق سلب کرلیں گے، باعزت طور پر جینے کی آس کو ختم کردیں گے، تو اس کے پاس آخری چارۂ کار یہی رہ جاتا ہے کہ دو چار کو مار کر مرو۔ اگرچہ یہ رویہ نہ کسی طور پر پسندیدہ ہے اور نہ اس کی حوصلہ افزائی اور تائید کی جاسکتی ہے، لیکن ایسے جذبات کو خوبصورت الفاظ اور دلکش وعظ ونصیحت سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے پیچھے آتشِ انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں، ان کا مداوا ضروری ہے‘‘۔
’’ناموسِ رسالت مآب کا تحفظ مسلمانوں کے عقیدے کی اساس ہے، اہلِ مغرب اور عالَم کفر کے لیے اس کی شدت کو سمجھنا دشوار ہے، کیوںکہ برتر مادّی قوت ہونے کے سبب وہ پوری دنیا کو اپنے کلچر اور اپنی اقدار کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا عقیدے کی نزاکتوں کے لیے ان کو قائل کرنا دشوار ہے، مگر انہیں باور کرانا چاہیے کہ اہانتِ رسول کا نتیجہ بے امنی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، عام لوگوںکے لیے اپنے دینی جذبات پر قابو پانا دشوار ہوتا ہے، پس بہتر ہے کہ امنِ عالَم کے قیام کے لیے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر پابندی لگائی جائے، گزشتہ سال یورپین عدالت نے اسی بنیاد پر فیصلہ کیا جو قابلِ تحسین اقدام ہے۔
(جاری ہے)